وفاقی حکومت پنشن کے بڑھتے ہوئے بوجھ کو کم کرنے کے لیے ریٹائرمنٹ کی عمر میں 5 سال کی کمی کا امکان ظاہر کر رہی ہے، جس سے موجودہ 60 سالہ عمر کی حد کو 55 سال تک لایا جا سکتا ہے۔ یہ تجویز آئی ایم ایف کی سفارشات کا حصہ ہے، جس پر سنجیدگی سے غور کیا جا رہا ہے۔
ایک سینئر حکومتی افسر نے تصدیق کی ہے کہ حکومت اس قدم کو پنشن اخراجات میں کمی کے لیے اہم سمجھتی ہے۔ گزشتہ برس وزارت خزانہ نے ریٹائرمنٹ کی عمر کو 62 سال کرنے کی تجویز دی تھی تاکہ پنشن اخراجات کو وقتی طور پر کم کیا جا سکے، مگر اسٹیبلشمنٹ نے اس تجویز کو مسترد کر دیا تھا۔
فی الوقت، سرکاری ملازمین کو 60 سال کی عمر میں ریٹائرمنٹ کے وقت بنیادی تنخواہ کے مساوی یا 30 سالہ سروس کی بنیاد پر پنشن دی جاتی ہے۔ وفاقی حکومت کو ایک کھرب روپے سے زائد کے پنشن بل کا سامنا ہے، جس میں سول ملازمین کا حصہ 260 ارب روپے اور مسلح افواج کا حصہ 750 ارب روپے ہے۔
گزشتہ ہفتے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی صدارت میں ہونے والے ایک اجلاس میں اقتصادی رابطہ کمیٹی نے پنشن اسکیم میں اصلاحات کی پیشرفت پر تحفظات کا اظہار کیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ کئی اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے باعث عمل درآمد میں تاخیر ہو رہی ہے۔
ریٹائرمنٹ کی عمر میں 5 سال کمی سے سالانہ 50 ارب روپے تک کے اخراجات کم ہو سکتے ہیں۔ تاہم حکومت اس تجویز کو یکدم نافذ کرنے کے بجائے مرحلہ وار عمل درآمد پر غور کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ یہ اقدام تجربہ کار ملازمین کو نجی شعبے میں منتقل ہونے کے مواقع فراہم کر سکتا ہے۔
حکومت نے پنشن کے بڑھتے ہوئے اخراجات کو روکنے کے لیے تمام نئی سرکاری ملازمتوں کے لیے شراکت داری پر مبنی پنشن اسکیم متعارف کرائی ہے، جو کہ طویل مدتی حل کا حصہ ہے۔