سال کی طویل ترین رات اور سب سے چھوٹے دن کے دلچسپ حقائق
پاکستان سمیت دنیا بھر کے شمالی نصف کرے میں 2024 کی سب سے طویل رات اور مختصر دن 21 دسمبر کو ہوگا۔
سال کے سب سے چھوٹے دن کو "راس الجدی” یا Winter Solstice کہا جاتا ہے۔ یہ زمین کی جھکاؤ اور اس کے محور کے گرد گھومنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ زمین اپنے محور پر 23.5 ڈگری جھکی ہوئی ہے، جس کی وجہ سے مختلف حصوں پر سورج کی روشنی مختلف مقدار میں پڑتی ہے۔
ناسا کے محقق مائیکل کرک کے مطابق زمین سیدھی نہیں بلکہ جھکی ہوئی ہے، جس کے باعث شمالی اور جنوبی نصف کروں میں سال کے مختلف حصوں میں دن اور رات کے دورانیے بدلتے رہتے ہیں۔
شمالی نصف کرے میں سردیوں کے دوران دن چھوٹے اور راتیں لمبی ہوجاتی ہیں، جبکہ جنوبی نصف کرے میں اس وقت گرمیوں کا موسم ہوتا ہے اور دن لمبے ہوجاتے ہیں۔
راس الجدی کے موقع پر قطب شمالی سورج کی روشنی سے مکمل طور پر محروم ہوجاتا ہے، جس سے وہاں 24 گھنٹے کی تاریکی چھا جاتی ہے۔ اس کے برعکس، جنوبی نصف کرے میں یہ وقت "خط سرطان” یا Summer Solstice کہلاتا ہے، جب وہاں دن سب سے لمبا اور رات سب سے مختصر ہوتی ہے۔
پاکستان
اسلام آباد میں دن کا دورانیہ 9 گھنٹے 55 منٹ ہوگا، جبکہ رات 14 گھنٹے 5 منٹ پر محیط ہوگی۔ لاہور میں دن 10 گھنٹے 6 منٹ اور کراچی میں 10 گھنٹے 36 منٹ کا ہوگا۔
پیرس: دن کا دورانیہ 8 گھنٹے 14 منٹ ہوگا، جبکہ رات 16 گھنٹے طویل ہوگی۔
ناروے (اوسلو): دن صرف 6 گھنٹے تک کا ہوگا، جبکہ رات طویل ہوگی۔
الاسکا (Nome): یہاں دن کا دورانیہ 3 گھنٹے 54 منٹ ہوگا اور رات 20 گھنٹے طویل ہوگی۔
دلچسپ ثقافتی حقائق
دنیا کی کئی قدیم تہذیبوں میں راس الجدی کو اہمیت دی جاتی تھی
انگلینڈ: اسٹون ہینج کے مقام پر سورج کی شعاعیں سیدھ میں آتی ہیں۔
میکسیکو: مایا تہذیب کے شہر Tulum میں ایک اسٹرکچر بنایا گیا تھا، جہاں سورج کی شعاعیں ایک سوراخ سے گزر کر منفرد منظر پیش کرتی تھیں۔
راس الجدی کی تاریخ ہر سال 20 سے 24 دسمبر کے درمیان تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ اس کی وجہ زمین کا سورج کے گرد چکر مکمل کرنے میں 365.25 دن لگنا اور کیلنڈر میں ہر چار سال بعد ایک لیپ دن کا اضافہ ہے۔
سردیوں کے دوران شمالی نصف کرے میں زمین سورج کے سب سے قریب ہوتی ہے، مگر جھکاؤ کی وجہ سے سورج کی روشنی کمزور محسوس ہوتی ہے، جو سرد موسم کا باعث بنتی ہے۔
یہ لاطینی لفظ ہے جس کا مطلب ہے "سورج کا رک جانا”۔ اس وقت سورج کا راستہ آسمان پر معمولی سا تبدیل ہوتا ہے، مگر یہ تبدیلی انسانی آنکھ سے محسوس کرنا مشکل ہوتا ہے۔