2024ءکے اہم سیاسی واقعات پر ایک نظر

عام انتخابات اس سال کے سب سے اہم سیاسی واقعات میں سے ایک تھے

لاہور: 2024 کا آخری روز ہے، اور چند گھنٹوں بعد یہ سال اپنے اختتام کو پہنچ جائے گا۔ وطن عزیز کے لیے یہ سال بھی گزشتہ برسوں کی طرح مختلف چیلنجز اور غیر یقینی حالات سے بھرپور رہا۔

سال 2024 کا آغاز بھی سیاسی ہنگاموں کے ساتھ ہوا اور اس کے اختتام پر بھی سیاسی صورتحال مختلف نہ رہی۔ 8 فروری کے عام انتخابات اس سال کے سب سے اہم سیاسی واقعات میں سے ایک تھے، جنہوں نے ملک کے سیاسی ڈھانچے میں بڑی تبدیلیوں کی راہ ہموار کی۔

سال کا آغاز ملک بھر میں شدید سیاسی بے یقینی کے ماحول سے ہوا، خاص طور پر عام انتخابات کے حوالے سے۔ پی ٹی آئی کی انتخابات میں شمولیت سے متعلق شکوک و شبہات، انتخابات میں تاخیر اور غیر یقینی صورتحال نے ملک کے سیاسی تناظر کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔

13 جنوری کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن کے انٹرا پارٹی انتخابات کو غیر قانونی قرار دیا گیا، جس کی بنیاد پر پاکستان تحریک انصاف اپنا انتخابی نشان “بلّا” کھو بیٹھی۔ اس فیصلے نے پارٹی کی انتخابی مہم کو شدید مشکلات سے دوچار کر دیا، اور امیدواروں کو مختلف نشانوں کے تحت آزاد حیثیت میں انتخابات لڑنے پڑے۔

8 فروری کو ملکی تاریخ کے سب سے بڑے عام انتخابات کا انعقاد ہوا۔ انتخابات کے دوران سکیورٹی کے مسائل اور سیاسی افراتفری نے معاملات کو مزید مشکل بنا دیا۔ غیر سرکاری نتائج میں تاخیر اور دھاندلی کے الزامات نے انتخابات کی شفافیت پر کئی سوالات اٹھائے۔

انتخابات کے نتیجے میں کوئی جماعت واضح اکثریت حاصل نہ کر سکی، جس کے بعد مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے اتحاد بنا کر مخلوط حکومت تشکیل دی۔ تاہم، سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں تحریک انصاف کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین اور غیر مسلم نشستوں کے لیے اہل قرار دینے کا فیصلہ حکومت کے لیے بڑا دھچکا ثابت ہوا۔

سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو مختلف مقدمات میں سزائیں سنائی گئیں۔ سائفر کیس، توشہ خانہ کیس، اور غیر شرعی نکاح جیسے مقدمات میں عمران خان کو مختلف مدت کی سزائیں دی گئیں۔ اگرچہ جولائی میں کچھ مقدمات میں انہیں بری کر دیا گیا، لیکن نئے مقدمات کے تحت گرفتاریاں جاری رہیں۔

12 اگست کو سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کو حراست میں لیا گیا، اور ان پر سیاسی معاملات میں مداخلت کے الزامات عائد کیے گئے۔ دسمبر میں ان پر باقاعدہ فردِ جرم عائد کی گئی، جس میں زمین پر قبضے اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات شامل تھے۔

20 اکتوبر کو پارلیمنٹ نے 26 ویں آئینی ترمیم منظور کی، جس کے تحت چیف جسٹس کے اختیارات محدود کر دیے گئے اور تین سینئر ترین ججز میں سے چیف جسٹس کے انتخاب کا اختیار پارلیمنٹ کو دیا گیا۔ اس ترمیم کے تحت جسٹس یحییٰ آفریدی پاکستان کے پہلے چیف جسٹس مقرر ہوئے، جو پارلیمانی کمیٹی کی سفارش پر منتخب کیے گئے تھے۔

2024 کو اگر ’’احتجاج کا سال‘‘ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ تحریک انصاف نے 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف ملک گیر مظاہرے کیے، جن میں جمہوریت کی بحالی اور بے گناہ سیاسی قیدیوں کی رہائی کے مطالبات شامل تھے۔ دیگر جماعتوں نے بھی انتخابات کے نتائج کو مسترد کرتے ہوئے دھاندلی کے الزامات عائد کیے۔

فروری کے انتخابات کے بعد مشہور سوشل میڈیا پلیٹ فارم “ایکس” (سابقہ ٹوئٹر) کو قومی سلامتی کے خدشات کے پیش نظر بند کر دیا گیا، اور یہ بندش سال کے آخر تک جاری رہی۔

ستمبر میں آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے 7 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کی منظوری دی، جس نے معیشت کے لیے امید کی کرن پیدا کی۔ آئی ایم ایف کے مطابق، مالی سال 2025 کے لیے جی ڈی پی کی شرح نمو 3.2 فیصد رہنے کی توقع ہے، جو حکومتی ہدف سے کم لیکن عالمی پیش گوئیوں سے بہتر ہے۔

پاکستان نے شنگھائی تعاون تنظیم کے 23 ویں اجلاس کی کامیاب میزبانی کی، جس میں بھارت کے وزیر خارجہ کی شرکت ایک اہم سفارتی کامیابی ثابت ہوئی۔

اگرچہ سال 2024 سیاسی، معاشی اور سماجی عدم استحکام سے بھرپور رہا، لیکن آنے والے سال میں امید ہے کہ پاکستان سیاسی استحکام اور ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین