صدر مملکت آصف علی زرداری نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا، جہاں اپوزیشن نے شدید احتجاج اور نعرے بازی کی۔ صدر مملکت نے وفاقی حکومت کی بعض پالیسیوں پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے انہیں یکطرفہ قرار دیا اور دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کے فیصلے پر نظرثانی کا مطالبہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کو عوامی توقعات پر پورا اترنا ہوگا، جبکہ معیشت کی بہتری اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات ناگزیر ہیں۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں پارلیمانی سال مکمل ہونے پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہوا، جس میں صدر مملکت آصف علی زرداری نے آٹھویں مرتبہ خطاب کیا۔ جیسے ہی انہوں نے تقریر شروع کی، اپوزیشن نے شدید احتجاج کرتے ہوئے نعرے لگائے جو پوری تقریر کے دوران جاری رہے۔
ایجنڈے کے مطابق صدر کے خطاب کے سوا کوئی اور کارروائی اجلاس میں شامل نہیں تھی۔ اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف، نائب وزیراعظم اسحاق ڈار، بلاول بھٹو زرداری، مریم نواز، پرویز خٹک، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی سمیت کئی اہم شخصیات نے شرکت کی۔ غیر ملکی سفیر بھی مہمان گیلری میں موجود تھے۔
اجلاس کے آغاز میں ہی پی ٹی آئی کے اراکین نے شرکت کی اور ایوان میں داخل ہوتے ہی نعرے بازی شروع کردی۔ وہ پلے کارڈز بھی ساتھ لائے۔ پرویز خٹک غلطی سے اپوزیشن بینچز کی طرف چلے گئے، پھر یاد آنے پر واپس آئے اور وزیراعظم اور نائب وزیراعظم سے مصافحہ کیا۔
صدر مملکت جیسے ہی خطاب کے لیے کھڑے ہوئے، اپوزیشن نے شور شرابہ شروع کردیا۔ اس پر صدر زرداری اور وزیراعظم نے ہیڈ فون لگا لیے۔ صدر زرداری اپوزیشن کی طرف دیکھ کر مسکراتے رہے، جبکہ اپوزیشن لیڈر عمر ایوب مسلسل ڈیسک بجاتے رہے اور پی ٹی آئی کے کارکن عمران خان کے حق میں نعرے لگاتے رہے۔
صدر مملکت نے خطاب میں کہا کہ بطور سویلین صدر آٹھویں بار اس ایوان سے خطاب کرنا ان کے لیے اعزاز ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کو بہتر طرز حکمرانی، سیاسی و اقتصادی استحکام پر توجہ دینی چاہیے، کیونکہ عوام کی امیدیں اسی ادارے سے وابستہ ہیں۔ جمہوری نظام کو مستحکم کرنے اور قانون کی حکمرانی پر عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے سخت محنت کی ضرورت ہے
انہوں نے کہا کہ یہ ایوان گورننس کے معیار کو بہتر بنانے اور عوامی خدمات کی فراہمی میں مؤثر کردار ادا کرے۔ وزارتوں کو چاہیے کہ وہ اپنی ترجیحات طے کریں اور عوام کو درپیش مسائل حل کرنے کے لیے مخصوص وقت مقرر کریں۔
صدر زرداری نے کہا کہ اراکینِ پارلیمنٹ کو قومی اتحاد اور اتفاق کا مظاہرہ کرنا ہوگا، کیونکہ ملک کو اس وقت یکجہتی کی شدید ضرورت ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ ٹیکس کے نظام میں بہتری لانے کے لیے پہلے سے ٹیکس دینے والوں پر مزید بوجھ ڈالنے کے بجائے ہر اہل شہری کو ٹیکس نیٹ میں شامل کیا جائے۔
صدر مملکت نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ آئندہ بجٹ میں عوام کو ریلیف دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ، تنخواہ دار طبقے پر انکم ٹیکس کی شرح کم کرنا اور توانائی کی لاگت میں کمی جیسے اقدامات کیے جائیں تاکہ عوام کو براہ راست فائدہ ہو۔
صدر زرداری نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سیکیورٹی فورسز نے بے شمار قربانیاں دی ہیں، اور قوم کو اپنی افواج پر فخر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ عسکریت پسندی کی وجوہات میں عدم مساوات اور معاشی محرومی شامل ہیں، لہٰذا ان مسائل کو حل کرنا ضروری ہے۔
صدر مملکت آصف علی زرداری نے اپنی تقریر میں حکومت کی کچھ پالیسیوں پر تحفظات کا اظہار کیا اور انہیں وفاق کے لیے نقصان دہ قرار دیا۔ انہوں نے خاص طور پر دریائے سندھ سے مزید نہریں نکالنے کے فیصلے کی مخالفت کی اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس تجویز کو ترک کرکے تمام فریقین کے ساتھ مشاورت کرے۔
اپنے خطاب کے اختتام پر صدر زرداری نے کہا کہ تمام اداروں کو مل کر ملک کو خوشحال بنانے کے لیے کام کرنا ہوگا۔ انہوں نے پارلیمنٹ سے اپیل کی کہ اس سال کو بہترین حکومتی کارکردگی کا سال بنایا جائے تاکہ عوام کو حقیقی ریلیف مل سکے۔