کیا آپ جانتے ہیں کہ ہماری روزمرہ کی زندگی میں استعمال ہونے والا پلاسٹک بیکٹیریا کو اینٹی بایوٹکس کے خلاف مزید مزاحم بنا سکتا ہے؟ ایک نئی تحقیق میں یہ حیران کن انکشاف ہوا ہے کہ باریک پلاسٹک ذرات، جو پانی، خوراک اور ماحول میں موجود ہوتے ہیں، جراثیم کو اینٹی مائیکروبائل دواؤں کے خلاف مزید مضبوط بنا رہے ہیں۔ اس دریافت نے سائنسدانوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے، کیونکہ اس کا اثر عالمی صحت پر گہرا پڑ سکتا ہے۔ آئیے تفصیلات جانتے ہیں۔
بوسٹن یونیورسٹی کے محققین نے اپنی تحقیق میں یہ معلوم کیا کہ مائیکروپلاسٹک آلودگی کی موجودگی میں بیکٹیریا اینٹی بایوٹکس کے خلاف زیادہ مزاحم ہو جاتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ دریافت غیر متوقع اور تشویشناک ہے، کیونکہ اس سے بیماریوں کے علاج مزید مشکل ہو سکتے ہیں۔
تحقیق میں شامل جامعہ کی پی ایچ ڈی طالبہ نیئلا گروس کے مطابق، پلاسٹک ایک ایسی سطح فراہم کرتا ہے جو بیکٹیریا کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور انہیں نشوونما پانے میں مدد دیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ باریک پلاسٹک ذرات بیکٹیریا کے لیے محفوظ پناہ گاہ بن کر انہیں مزید طاقتور بنا رہے ہیں۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کے مطابق، 2019 میں بیکٹیریا کی اینٹی مائیکروبائل مزاحمت کی وجہ سے دنیا بھر میں 12 لاکھ 70 ہزار افراد براہ راست ہلاک ہوئے، جب کہ تقریباً 50 لاکھ اموات میں یہ مزاحمت ایک بڑا عنصر ثابت ہوئی۔ اس کا مطلب ہے کہ اینٹی بایوٹکس وہ اثر نہیں دکھا سکیں جو انہیں دکھانا چاہیے تھا، اور نتیجتاً لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق، اگر اینٹی مائیکروبائل مزاحمت میں اضافہ جاری رہا تو آئندہ 25 برسوں میں صحت کے شعبے پر 10 کھرب ڈالر کے اضافی اخراجات کا بوجھ پڑ سکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں علاج مزید مہنگا ہو جائے گا، بیماریاں بڑھیں گی اور صحت عامہ کے لیے نئے چیلنجز پیدا ہوں گے۔
مائیکروپلاسٹک آلودگی صرف ماحول کے لیے ہی نہیں بلکہ انسانی صحت کے لیے بھی ایک بڑا خطرہ بن رہی ہے۔ اگر اس مسئلے پر قابو نہ پایا گیا تو اینٹی بایوٹکس کے خلاف بڑھتی ہوئی مزاحمت دنیا بھر میں صحت کے شعبے کو شدید نقصان پہنچا سکتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ پلاسٹک کے بے جا استعمال کو کم کیا جائے اور ماحولیاتی آلودگی کے خلاف فوری اقدامات کیے جائیں۔