کیا آپ جو منرل واٹر پی رہے ہیں، وہ واقعی صاف ہے؟ حالیہ تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ ملک بھر میں فروخت ہونے والے 27 منرل واٹر برانڈز کا پانی غیر معیاری اور مضرِ صحت پایا گیا ہے۔ ان میں کچھ برانڈز ایسے بھی ہیں جن میں خطرناک مقدار میں سوڈیم، آرسینک اور پوٹاشیم موجود ہے، جبکہ کچھ میں جراثیم کی موجودگی پائی گئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس آلودہ پانی کے استعمال سے جلد کے مسائل، کینسر، گردوں اور دل کی بیماریاں، بلڈ پریشر اور نروس سسٹم کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ متعلقہ ادارے اس خطرے کے باوجود کوئی مؤثر کارروائی نہیں کر رہے۔
اسلام آباد سے ملنے والی معلومات کے مطابق، ملک کے مختلف شہروں اور دیہات میں فروخت ہونے والے منرل واٹر کے 27 برانڈز میں سے بعض میں مقررہ مقدار سے زیادہ سوڈیم، آرسینک اور پوٹاشیم موجود پایا گیا، جبکہ کچھ برانڈز کا پانی جراثیمی طور پر آلودہ نکلا۔ اس آلودہ پانی کے مسلسل استعمال سے نہ صرف جلدی بیماریاں ہو سکتی ہیں بلکہ یہ کینسر، گردوں کی خرابی، دل کی بیماریاں، بلڈ پریشر کے مسائل اور پیٹ کی مختلف بیماریوں کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق، اگر کسی غیر معیاری برانڈ کے خلاف کارروائی کر کے کمپنی بند کر دی جائے تو وہ دوسرے نام سے دوبارہ مارکیٹ میں آ جاتی ہے۔ اس وجہ سے ایسے برانڈز کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی دیکھنے میں نہیں آتی، اور عوام بدستور غیر معیاری پانی پینے پر مجبور ہیں۔
اکتوبر سے دسمبر 2024 کی سہ ماہی میں ملک کے 20 مختلف شہروں سے 176 منرل واٹر برانڈز کے نمونے لیے گئے۔ ان کا لیبارٹری میں تجزیہ کیا گیا، جس کے مطابق 27 برانڈز غیر معیاری نکلے۔
پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز (PCRWR) کی رپورٹ کے مطابق، غیر معیاری پانی پائے جانے والے برانڈز میں شامل ہیں:
10 برانڈز (میرن ڈرنکنگ واٹر، پاک ایکوا، جیل بوتل واٹر، نیو، آبِ دبئی، ایلٹسن، پیور واٹر، ایکوا ہیلتھ، اوسلو، مور پلس) – ان میں سوڈیم کی مقدار حد سے زیادہ پائی گئی۔
5 برانڈز (ون پیور ڈرنکنگ واٹر، انڈس، مور پلس، اسنشیا، لائف ان) – ان میں جراثیم کی موجودگی کا انکشاف ہوا، جو پینے کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔
ڈائریکٹر جنرل PCRWR ڈاکٹر حفظہ رشید کے مطابق، کابینہ کی ہدایت پر ہر سہ ماہی میں ملک کے 24 شہروں سے منرل واٹر کے نمونے لیے جاتے ہیں، جنہیں ٹیسٹ کرنے کے بعد رپورٹ پاکستان اسٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی (PSQCA) اور چاروں صوبائی چیف سیکرٹریز کو بھیجی جاتی ہے تاکہ ضروری قانونی کارروائی کی جا سکے۔