بھارت میں سوشل میڈیا پر مسلمانوں کے اقتصادی اور سماجی بائیکاٹ کی مہم نے لاکھوں تاجروں کو شدید مالی مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ کئی کامیاب کاروباری افراد اب پھلوں کے ٹھیلے لگانے پر مجبور ہیں۔ مہاراشٹر، اتر پردیش، مدھیہ پردیش اور دیگر ریاستوں میں مسلمانوں کے کاروبار پر مختلف طریقوں سے قدغن لگائی جا رہی ہے، جس میں مذہبی تقریبات میں شرکت پر پابندی، دکانوں کے مالکان کے نام نمایاں کرنے کے احکامات اور کاروباری لائسنس کی مشکلات شامل ہیں۔
بھارتی میڈیا کے مطابق، ملک میں مسلمانوں کے اقتصادی اور سماجی بائیکاٹ کی مختلف مہمات جاری ہیں، جن کی وجہ سے لاکھوں مسلمان تاجر شدید مسائل کا شکار ہو گئے ہیں۔ ایسے کئی مسلمان جو پہلے کروڑوں روپے کے کاروبار کر رہے تھے، اب مجبوری میں پھلوں کے ٹھیلے لگانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
بھارتی ریاست مہاراشٹر کے ضلع اہلیہ نگر کے مادھی گاؤں میں پنچایت نے اعلان کیا کہ سالانہ کانیف ناتھ مہاراج یاترا کے دوران مسلمانوں کو کاروبار کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس پابندی کی حمایت ریاست کے وزیر نتیش رانے نے کرتے ہوئے کہا کہ مہاراشٹر میں "ہندوتوا کی حکومت” ہے۔
یہ مذہبی میلہ مارچ کے وسط میں ہوتا ہے، جہاں ہزاروں ہندو زائرین اور تاجر آتے ہیں، اور ہر سال تمام برادریوں کے لوگ یہاں سٹال لگا کر مختلف اشیاء فروخت کرتے ہیں۔ تاہم، اس سال 22 فروری کو گاؤں کی پنچایت نے قرارداد منظور کی کہ مسلم تاجروں کو یاترا میں کاروبار کی اجازت نہیں دی جائے گی، کیونکہ وہ ہندو روایتوں پر عمل نہیں کرتے۔
یہ مسئلہ صرف مہاراشٹر تک محدود نہیں۔ جنوری میں مہا کمبھ میلے کے آغاز سے قبل ہندو سادھوں کی تنظیم "اکھل بھارتیہ اکھاڑہ پریشد” نے اعلان کیا کہ مسلمانوں کو میلے میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا، حالانکہ ماضی میں اس پر کوئی پابندی نہیں تھی۔اسی طرح، متھرا میں بھی مسلمانوں کو ہولی کے تہوار سے الگ رکھنے کی اپیل کی گئی ہے۔
بی جے پی سے منسلک سخت گیر ہندو تنظیمیں اور مقامی رہنما مسلسل مسلمانوں کے سماجی اور اقتصادی بائیکاٹ کی اپیلیں کر رہے ہیں۔ زائرین کے راستوں میں موجود مسلم دکانداروں، ہوٹلوں اور ریستورانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
اتر پردیش کی حکومت نے حکم جاری کیا کہ دکانوں کے سائن بورڈ پر دکان کے مالک کا اصل نام لکھا جائے۔ بظاہر یہ اقدام سیکیورٹی اور شفافیت کے لیے کیا گیا، مگر اس کا مقصد مسلمانوں کی مذہبی شناخت کو نمایاں کرنا تھا، تاکہ ہندو خریدار ان سے خریداری نہ کریں۔
ہریدوار اور دیگر مقدس شہروں میں جانے والے ہندو زائرین اکثر مغربی اتر پردیش کے مظفر نگر میں رک کر کھانے اور قیام کے لیے ہوٹلوں میں ٹھہرتے تھے۔ یہاں کے بیشتر ریستوران اور ہوٹل مسلمان چلا رہے تھے، مگر حکومت کی نئی پالیسیوں اور ہندو تنظیموں کے دباؤ کے بعد اب کئی مسلمان ہوٹل بند ہو چکے ہیں۔
اتر پردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت آنے کے بعد کئی مسلمان تاجروں کے لیے مشکلات بڑھ گئی ہیں۔ گوشت کا کاروبار، جس میں لاکھوں مسلمان شامل تھے، سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ کئی بڑے سلاٹر ہاؤسز بند کر دیے گئے، اور مسلم تاجروں کے گوشت ایکسپورٹ کرنے والے کاروبار پر شدید ضرب لگی۔
میرٹھ کے محمد عمران یعقوب قریشی کا کروڑوں روپے کا پلانٹ گزشتہ چھ برسوں سے بند پڑا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی سالانہ آمدنی ہزار کروڑ روپے تک تھی اور ان کے پلانٹ میں ڈیڑھ سے دو ہزار لوگ کام کرتے تھے۔ اس کے علاوہ، سپلائرز اور دیگر 15 سے 20 ہزار افراد اس کاروبار سے وابستہ تھے، جو اب بے روزگار ہو گئے ہیں۔
آل انڈیا جمعیت القریش کے جنرل سیکرٹری حابی یوسف قریشی نے کہا کہ حکومت نے جان بوجھ کر مسلمانوں کے کاروبار کو نشانہ بنایا، تاکہ ان کی اقتصادی حالت خراب ہو جائے۔
حکومت کی خاموشی نے ان عناصر کو مزید حوصلہ دیا ہے جو مسلمانوں کے خلاف سماجی اور اقتصادی بائیکاٹ کی مہم چلا رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کی معاشی ترقی کو روکنے کے لیے ان کے کاروبار بند کرائے جا رہے ہیں، تاکہ وہ دوبارہ غربت میں چلے جائیں۔
یہ سب کچھ بھارت کے آئین کے منافی ہے، مگر حکومت اس معاملے پر کوئی کارروائی نہیں کر رہی، جس کی وجہ سے مسلمان تاجر مزید مشکلات میں پھنس رہے ہیں۔