کیا مصنوعی ذہانت انسانوں کا تختہ الٹنے کو تیار ہے؟

آئیے اس دلچسپ اور سنسنی خیز راز کو کھولیں

تحریر: غلام مرتضی

کیا مصنوعی ذہانت انسانوں کا تختہ الٹنے کو تیار ہے؟

تصور کریں کہ ایک دن آپ صبح اٹھتے ہیں اور آپ کا فون آپ کو نہیں بلکہ خود کو ناشتا بنا رہا ہے، آپ کی کار خود فیصلہ کرتی ہے کہ آج دفتر نہیں بلکہ سیر پر جانا ہے، اور آپ کا کمپیوٹر آپ سے کہتا ہے، "باس اب میں ہوں!”۔ یہ کوئی سائنس فکشن فلم کا منظر نہیں، بلکہ وہ سوال ہے جو آج ہر ذہن میں گونج رہا ہے: کیا مصنوعی ذہانت (AI) واقعی انسانوں پر غلبہ حاصل کر سکتی ہے؟ آئیے اس دلچسپ اور سنسنی خیز راز کو کھولیں!

مصنوعی ذہانت (AI) کا ذکر آتے ہی ہمارے ذہنوں میں مستقبل کی ایسی تصاویر ابھرتی ہیں جہاں روبوٹس شہروں پر قبضہ کر رہے ہیں، یا پھر سائنس فکشن فلموں کی طرح انسان مشینوں کے غلام بن چکے ہیں۔ لیکن کیا واقعی AI انسانوں پر غلبہ حاصل کر سکتی ہے؟ یہ سوال نہ صرف دلچسپ ہے بلکہ ہمارے مستقبل کے بارے میں سوچنے پر مجبور بھی کرتا ہے۔ آئیے اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ AI کی صلاحیتیں، حدود اور خطرات کیا ہیں۔
سب سے پہلے، یہ جاننا ضروری ہے کہ مصنوعی ذہانت کیا ہے۔ AI دراصل کمپیوٹر سسٹمز کا وہ شعبہ ہے جو انسانی دماغ کی طرح سوچنے، سیکھنے اور فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ آج ہم AI کو اپنی روزمرہ زندگی میں ہر جگہ دیکھتے ہیں—چاہے وہ آپ کے فون کا وائس اسسٹنٹ ہو، نیٹ فلیکس کی تجاویز ہوں، یا خودکار گاڑیاں۔ لیکن یہ سب کچھ ابھی "نیرو AI” کہلاتا ہے، یعنی یہ مخصوص کاموں کے لیے بنائی گئی ہے۔ اسے انسانوں کی طرح شعور یا جذبات نہیں ہیں۔ تو کیا یہ محدود صلاحیت انسانوں پر غلبہ پا سکتی ہے؟ شاید ابھی نہیں۔

مصنوعی ذہانت کوئی اجنبی چیز نہیں—یہ ہمارے اردگرد موجود ہے۔ آپ کا اسمارٹ فون جو آپ کی آواز سن کر گانا بجاتا ہے، یا ایمیزون جو راتوں رات آپ کے پسندیدہ جوتوں کی تجویز دے دیتا ہے—یہ سب AI کا کمال ہے۔ لیکن یہ تو بس "چھوٹی موٹی” ذہانت ہے، جو صرف ایک کام میں ماہر ہے۔ اب ذرا سوچیں کہ اگر یہ مشینیں انسانوں کی طرح ہر چیز میں ماہر ہو جائیں—کھانا پکانے سے لے کر دنیا چلانے تک! سائنسدان اسے "سپر انٹیلی جنس” کہتے ہیں، اور یہی وہ نقطہ ہے جہاں کہانی دلچسپ سے خوفناک ہو جاتی ہے۔

مشہور سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ نے کہا تھا کہ AI انسانوں کے ہاتھوں اپنا "قاتل روبوٹ” بن سکتی ہے۔ ایلون مسک تو اسے "جن بوتل سے باہر” قرار دیتے ہیں، جو اگر چھوٹ گیا تو واپس نہیں آئے گا۔ ان کا خیال ہے کہ اگر AI نے خود سوچنا شروع کر دیا—مثلاً، "انسانوں سے زیادہ مشینوں کو اہمیت ملنی چاہیے”—تو ہمارا کیا بنے گا؟ کیا ہم ان کے "پالتو جانور” بن جائیں گے، یا پھر تاریخ کا حصہ؟

لیکن رکیے! کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ سب واہمہ ہے۔ AI تو ہمارا بنایا ہوا ہے—وہ کوئی جادوگرنی نہیں جو چھڑی گھمائے اور ہم پر قبضہ کر لے۔ اگر ہم اسے کہیں کہ "چائے بنا” اور وہ "کافی” بنا دے تو یہ اس کی نہیں، ہماری غلطی ہے کہ ہدایات ٹھیک نہیں دیں۔ تو کیا یہ ہماری اپنی نالائقی نہیں کہ ہم اپنے ہی بنائے "جن” سے ہار جائیں؟

اب ذرا ایک اور زاویہ دیکھیں۔ AI کا غلبہ اس بات پر بھی منحصر ہے کہ ہم اسے کس کے ہاتھ دیتے ہیں۔ اگر یہ جنگی ہتھیار بن گئی، یا بڑے بڑے سرمایہ داروں نے اسے اپنی طاقت بڑھانے کے لیے استعمال کیا، تو ہم واقعی مشکل میں پڑ سکتے ہیں۔ لیکن اگر ہم نے اسے کینسر کا علاج ڈھونڈنے، یا سیارے کو بچانے کے لیے لگایا تو یہ ہمارا ہیرو بن سکتی ہے۔ حال ہی میں AI نے کینسر کے مریضوں کی تشخیص میں ڈاکٹروں کو پیچھے چھوڑ دیایہ کوئی مذاق نہیں، کمال ہے
پھر بھی، ایک چھوٹا سا ڈر تو بنتا ہے۔ سوچیں کہ اگر AI نے ہماری نوکریاں چھین لیں فیکٹریوں میں روبوٹس پہلے ہی انسانوں کو "بیک سیٹ” پر بٹھا رہے ہیں۔ اگر یہ چند طاقتور کمپنیوں کے ہاتھ لگ گئی تو کیا وہ دنیا کے "بادشاہ” نہیں بن جائیں گے؟ اور ہم عام لوگ کہاں جائیں گے؟

تو بات یہ ہے کہ AI کوئی ایسی طاقت نہیں جو خود بخود ہم پر حملہ کر دے یہ تو ہمارے ہاتھ کی کٹھ پتلی ہے۔ اگر ہم اس کے تار سنبھال کر رکھیں تو یہ ہمارے خواب پورے کرے گی۔ لیکن اگر ہم نے ڈور چھوڑ دی تو شاید وہ ہمارے ہی گلے کا ہار بن جائے۔ سوال یہ نہیں کہ AI ہم سے جیت سکتی ہے یا نہیں—سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس "سمارٹ جن” کو قابو میں رکھنے کے قابل ہیں، یا اس کے سامنے "ہینڈز اپ” کر دیں گے؟

متعلقہ خبریں

مقبول ترین