برازیل کی چمگادڑوں میں سائنس دانوں نے ایک نیا کورونا وائرس ڈھونڈ نکالا جو خطرناک مرس وائرس سے کافی ملتا جلتا ہے، لیکن ابھی یہ پتہ نہیں کہ یہ انسانوں کے لیے خطرہ بن سکتا ہے یا نہیں
سائنس دانوں نے برازیل میں چمگادڑوں میں ایک نیا کورونا وائرس دریافت کیا ہے جو مہلک مرس وائرس سے بہت مشابہت رکھتا ہے۔ یہ دریافت برازیل کے دارالحکومت ساؤ پاولو اور ریاست سیرا کے محققین نے ہانگ کانگ یونیورسٹی کے سائنس دانوں کے ساتھ مل کر کی۔ انہوں نے دیکھا کہ یہ نیا وائرس مرس وائرس سے جینیاتی طور پر 72 فی صد تک ملتا ہے۔
مرس وائرس سب سے پہلے 2012 میں سعودی عرب میں سامنے آیا تھا اور اب تک دو درجن سے زیادہ ممالک میں اس کے کیسز دیکھے جا چکے ہیں۔ اس وائرس سے 850 سے زیادہ لوگ اپنی جان بھی گنوا چکے ہیں۔ تحقیق کرنے والی ایک سائنس دان اور پی ایچ ڈی کی طالبہ برونا اسٹیفنی سِلویریو نے بتایا کہ ابھی یہ سمجھنا مشکل ہے کہ یہ نیا وائرس انسانوں کو بیمار کر سکتا ہے یا نہیں۔ فی الحال اس کے خطرات کے بارے میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
مرس وائرس کی تاریخ
مرس وائرس، جس کا پورا نام "Middle East Respiratory Syndrome Coronavirus” (MERS-CoV) ہے، ایک خطرناک وائرس ہے جو کورونا وائرس خاندان کا حصہ ہے۔ اس کی تاریخ کچھ اس طرح ہے
یہ وائرس سب سے پہلے 2012 میں سعودی عرب میں سامنے آیا۔ اس کا پہلا کیس ایک مریض میں دیکھا گیا جسے سانس لینے میں شدید دشواری اور نمونیا کی علامات تھیں۔ سائنس دانوں نے اسے ایک نیا کورونا وائرس قرار دیا جو اس سے پہلے انسانوں میں نہیں دیکھا گیا تھا۔ اس کے بعد یہ تیزی سے توجہ کا مرکز بن گیا کیونکہ یہ جان لیوا ثابت ہو سکتا تھا۔
تحقیق سے پتہ چلا کہ مرس وائرس کا تعلق چمگادڑوں سے ہے، جو اس کے قدرتی میزبان سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ وائرس اونٹوں کے ذریعے انسانوں تک پہنچا۔ سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک میں اونٹوں سے رابطے کو اس کے پھیلاؤ کا ایک بڑا ذریعہ مانا گیا۔ انسانوں میں یہ وائرس سانس کے ذریعے یا قریبی رابطے سے پھیلتا ہے، لیکن یہ
کووڈ-19 جیسے وائرس کی طرح تیزی سے نہیں پھیلتا۔
کووڈ-19 جیسے وائرس کی طرح تیزی سے نہیں پھیلتا۔
2012 کے بعد سے مرس کے کیسز مشرق وسطیٰ کے علاوہ دو درجن سے زائد ممالک میں رپورٹ ہوئے، جن میں جنوبی کور میں 2015 کا ایک بڑا پھیلاؤ بھی شامل ہے۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) کے مطابق، اب تک اس وائرس سے تقریباً 2500 سے زائد کیسز سامنے آئے اور 850 سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں۔ اس کی شرح اموات کافی زیادہ ہے، تقریباً 35 فی صد، یعنی ہر تین میں سے ایک متاثرہ شخص جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔
مرس کی علامات میں تیز بخار، کھانسی، سانس لینے میں تکلیف اور بعض اوقات گردوں کا فیل ہونا شامل ہے۔ یہ خاص طور پر بزرگ افراد یا پہلے سے بیمار لوگوں کے لیے زیادہ خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ ابھی تک اس کی کوئی ویکسین یا خاص دوا تیار نہیں ہو سکی، لیکن سائنس دان اس پر مسلسل تحقیق کر رہے ہیں تاکہ اسے بہتر سمجھا اور کنٹرول کیا جا سکے۔
مرس وائرس آج بھی ایک خطرہ سمجھا جاتا ہے، خاص طور پر مشرق وسطیٰ میں، لیکن اس کا پھیلاؤ محدود رہا ہے، اور یہ عالمی وبا جیسا نہیں بنا جیسے کووڈ-19 بن گیا تھا۔