لاہور:پاکستان میں نجی شعبے کو قرض دینے کی شرح میں تیزی سے کمی دیکھی جا رہی ہے، جس کے باعث نہ صرف معاشی ترقی بلکہ حکومتی ریونیو اکٹھا کرنے کی صلاحیت بھی متاثر ہو رہی ہے۔ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو روزگار کے مواقع مزید کم ہو سکتے ہیں اور عوام کو مزید معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
تفصیلات کے مطابق شرح سود میں ایک ہزار بیسس پوائنٹ کی کمی کے باوجود نہ تو نجی شعبہ قرض لینے میں دلچسپی دکھا رہا ہے اور نہ ہی بینک طویل مدتی قرضے دینے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے اعداد و شمار کے مطابق، رواں مالی سال کے دوران 7 مارچ 2025 تک نجی شعبے کو دیے جانے والے بینک قرضے صرف 563 ارب روپے رہے۔ یہ رقم دسمبر 2024 کے آخر میں 19 کھرب 80 ارب روپے تھی، یعنی صرف دو ماہ کے اندر نجی شعبے کو دیے گئے قرضوں میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔
گزشتہ تین سالوں میں نجی شعبے کو قرض دینے کی رفتار بہت سست رہی ہے، جس کا اثر ملک کی مجموعی ترقی پر پڑ رہا ہے۔ نجی شعبے کے قرضوں کی شرحِ نمو محض 1.7 فیصد رہی، جو کہ ملک میں 2.4 فیصد سالانہ آبادی کے اضافے کی شرح سے بھی کم ہے۔
ماہرین کے مطابق، یہ معاشی جمود بے روزگاری میں اضافے کا سبب بن رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کی 2024 کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان کی 47 فیصد آبادی، یعنی تقریباً ساڑھے 9 کروڑ افراد، غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔
حکومت نے مالی سال 2025 کے لیے جی ڈی پی کی شرحِ نمو کا ہدف 2.5 سے 3.5 فیصد مقرر کیا تھا، لیکن نجی شعبے کے لیے قرضوں کے محدود بہاؤ سے ظاہر ہوتا ہے کہ معیشت میں سرگرمیاں سست روی کا شکار ہیں، جس کی وجہ سے یہ ہدف حاصل کرنا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔
رواں مالی سال کے پہلے آٹھ ماہ کے دوران ملک کی آمدنی میں بھی کمی دیکھی گئی ہے، جو کہ کمزور معاشی سرگرمیوں کا عکاس ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت اپنے محصولات کے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی تو اسے یا تو بالواسطہ ٹیکسوں میں اضافہ کرنا پڑے گا یا پھر بینکوں سے مزید قرض لینے کا سہارا لینا پڑے گا، جس سے عوام پر مزید مالی بوجھ پڑنے کا خدشہ ہے۔