لاہور:پاکستان کو آبی وسائل اور بجلی پیداوار کے محاذ پر سنگین صورتحال کا سامنا ہے، تربیلا ڈیم میں پانی کی سطح ڈیڈ لیول تک پہنچ گئی ہے، جس کے باعث بجلی کی پیداوار میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔
تفصیلات کے مطابق تربیلا ڈیم میں پانی کی سطح 1402 فٹ تک گر گئی ہے، جو کہ اس کا کم از کم آپریٹنگ لیول ہے۔ اس صورتحال کے نتیجے میں تربیلا بجلی گھر کے 17 میں سے 12 یونٹ بند ہو چکے ہیں، جبکہ صرف 5 یونٹ بجلی پیدا کر رہے ہیں۔ اس وقت نیشنل گرڈ کو 5500 میگاواٹ بجلی فراہم کی جا رہی ہے۔
واپڈا کی رپورٹ کے مطابق ملک کے مختلف آبی ذخائر میں پانی کی آمد و اخراج کی تفصیلات کچھ یوں ہیں:
دریائے سندھ: تربیلا کے مقام پر پانی کی آمد 16,300 کیوسک اور اخراج 15,900 کیوسک ریکارڈ کیا گیا۔
دریائے کابل: نوشہرہ کے مقام پر پانی کی آمد اور اخراج 10,300 کیوسک رہا، جبکہ خیرآباد پل پر آمد 17,300 کیوسک اور اخراج بھی 17,300 کیوسک رہا۔
دریائے جہلم: منگلا کے مقام پر پانی کی آمد 20,000 کیوسک اور اخراج 17,200 کیوسک ریکارڈ کیا گیا۔
دریائے چناب: مرالہ کے مقام پر پانی کی آمد 8,400 کیوسک جبکہ اخراج 2,100 کیوسک رہا۔
بیراجوں کی صورتحال:
جناح بیراج: آمد 30,200 کیوسک، اخراج 27,200 کیوسک
چشمہ: آمد 26,600 کیوسک، اخراج 22,500 کیوسک
تونسہ: آمد 26,900 کیوسک، اخراج 26,400 کیوسک
گدو: آمد 21,200 کیوسک، اخراج 17,100 کیوسک
سکھر: آمد 13,900 کیوسک، اخراج 6,000 کیوسک
کوٹری: آمد 5,300 کیوسک، اخراج 200 کیوسک
تریموں: آمد 11,200 کیوسک، اخراج 3,800 کیوسک
پنجند: آمد 2,900 کیوسک، اخراج صفر کیوسک
آبی ذخائر کی صورتحال:
تربیلا ڈیم: پانی ذخیرہ کرنے کی انتہائی سطح 1550 فٹ ہے، مگر اس وقت پانی کی سطح 1402 فٹ پر آ گئی ہے، جو کہ ڈیڈ لیول ہے۔ قابل استعمال پانی کا ذخیرہ صفر ہو چکا ہے۔
منگلا ڈیم: اس وقت پانی کی سطح 1063.75 فٹ ہے، جبکہ اس کا کم از کم آپریٹنگ لیول 1050 فٹ ہے۔ قابل استعمال پانی کا ذخیرہ 0.094 ملین ایکڑ فٹ ہے۔
چشمہ بیراج: پانی کی موجودہ سطح 638.15 فٹ ہے، جو کہ اس کے کم از کم آپریٹنگ لیول کے برابر ہے، جبکہ قابل استعمال پانی کا ذخیرہ بھی صفر ہو چکا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، تربیلا اور چشمہ کے مقامات پر دریائے سندھ، نوشہرہ کے مقام پر دریائے کابل اور منگلا کے مقام پر دریائے جہلم میں پانی کی آمد و اخراج 24 گھنٹوں کے اوسط بہاؤ کے مطابق ریکارڈ کیا گیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پانی کی یہ تشویشناک صورتحال نہ صرف زراعت بلکہ ملک کی توانائی پیداوار کے لیے بھی سنگین خطرہ بن سکتی ہے۔