ترکیہ کی سیاست میں ایک بڑا ہنگامہ برپا ہو گیا! استنبول کے میئر اکرام امام اوغلو کو بدعنوانی کی تحقیقات کے سلسلے میں باضابطہ گرفتار کر لیا گیا ہے، جس کے بعد ملک بھر میں شدید احتجاج پھوٹ پڑا۔ وہ صدر رجب طیب اردگان کے سب سے بڑے سیاسی حریف سمجھے جاتے ہیں، اور ان کی گرفتاری کے بعد ترکی کے 55 سے زائد صوبوں میں مظاہرے شروع ہو چکے ہیں۔ حزب اختلاف نے اس اقدام کو سیاسی انتقام قرار دیا ہے، جبکہ امام اوغلو کا کہنا ہے کہ ان پر لگائے گئے الزامات بے بنیاد اور غیر اخلاقی ہیں۔ ان کی گرفتاری کے باعث ترک لیرے کی قدر بھی گر گئی ہے، اور مالیاتی منڈیوں میں شدید افراتفری دیکھنے میں آ رہی ہے۔
ترکی کی ایک عدالت نے اتوار کے روز استنبول کے میئر اکرام امام اوغلو کو بدعنوانی کے الزامات میں باضابطہ گرفتار کر لیا، جس کے بعد ملک بھر میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق، امام اوغلو کے وکیل نے ان کی گرفتاری کی تصدیق کی ہے۔
عدالت کو حزب اختلاف کے مقبول میئر کے خلاف ’دہشت گردی سے متعلق‘ ایک اور مقدمے کا فیصلہ بھی کرنا ہے۔ ان کی حراست کے بعد ترکی میں ایک دہائی کے بدترین احتجاج کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔
مرکزی حزب اختلاف کی جماعت ’سی ایچ پی‘ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر پیغام دیا کہ "کوئی مایوسی نہیں! لڑائی جاری رکھیں!” اور اس گرفتاری کو سیاسی بغاوت قرار دیا۔
یہ گرفتاری ایسے وقت میں ہوئی ہے، جب سی ایچ پی کے ابتدائی انتخابات میں 2028 کے صدارتی انتخابات کے لیے امام اوغلو کو پارٹی کے امیدوار کے طور پر نامزد کرنے کے لیے ووٹنگ ہو رہی تھی۔
امام اوغلو، جو صدر رجب طیب اردگان کے سب سے بڑے سیاسی مخالف سمجھے جاتے ہیں، ان پر بدعنوانی اور ’ایک دہشت گرد تنظیم کی مدد‘ کے الزامات میں دو مختلف تحقیقات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ ہفتے کے روز انہوں نے پولیس کو بتایا کہ یہ تمام الزامات "غیر اخلاقی اور بے بنیاد” ہیں۔
ملک بھر میں احتجاج کی لہر
امام اوغلو کی گرفتاری کے بعد استنبول میں بڑے پیمانے پر احتجاج شروع ہو گیا، جو بعد میں ترکی کے 81 میں سے 55 صوبوں تک پھیل گیا۔ پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں بھی دیکھنے میں آئیں۔
وزیر داخلہ علی یرلیکایا نے ایکس پر بیان دیتے ہوئے کہا کہ ہفتے کی رات پولیس نے بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہروں کے دوران 323 افراد کو گرفتار کیا۔
اے ایف پی کے مطابق، اتوار کو بھی سی ایچ پی نے امام اوغلو کو صدارتی امیدوار نامزد کرنے کے لیے اپنی مہم جاری رکھی۔ پارٹی نے نہ صرف اپنے اراکین بلکہ عام شہریوں کے لیے بھی ووٹنگ کا راستہ کھول دیا، تاکہ امام اوغلو کے حق میں عوامی حمایت کا اظہار کیا جا سکے۔
ہفتے کی رات استنبول میں ہونے والے احتجاج کے دوران مظاہرین نے ایسے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر لکھا تھا: "ڈکٹیٹر بزدل ہوتے ہیں!” اور "اے کے پی، آپ ہمیں خاموش نہیں کرا سکتے!”
پولیس نے احتجاج روکنے کے لیے ربڑ کی گولیوں، مرچوں والے پانی کے اسپرے اور دستی بموں کا استعمال کیا، جس کے بعد متعدد افراد کو استنبول سٹی ہال میں پناہ لینا پڑی۔
دارالحکومت انقرہ میں پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے واٹر کینن استعمال کیے، جبکہ مغربی ساحلی شہر ازمیر میں حکومتی جماعت ’اے کے پی‘ کے دفاتر کی جانب مارچ کرنے والے طلبہ کو پولیس نے روک دیا۔
سی ایچ پی کے رہنما اوزگر اوزل نے استنبول میں ایک بڑے مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہاں موجود مظاہرین کی تعداد 5 لاکھ سے زیادہ ہے۔
ملک بھر میں رات بھر مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا، اور اس دوران امام اوغلو کو دونوں مقدمات میں استغاثہ کے سوالات کا جواب دینے کے لیے عدالت لے جایا گیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق، پہلی پوچھ گچھ شام 7:30 بجے شروع ہوئی، دوسری کچھ دیر بعد ہوئی، اور یہ سلسلہ صبح 7:30 بجے تک جاری رہا۔
اے ایف پی کے مطابق، پولیس نے عدالت کے ارد گرد سخت سیکیورٹی قائم کر رکھی تھی، جبکہ تقریباً ایک ہزار مظاہرین وہاں نعرے بازی کرتے رہے۔
امام اوغلو نے اپنی گرفتاری سے قبل پولیس کو بتایا تھا کہ اس اقدام سے ترکی کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
انہوں نے کہا کہ "یہ گرفتاری نہ صرف ترکی کی بین الاقوامی ساکھ کو متاثر کر رہی ہے، بلکہ عوام کے انصاف پر اعتماد اور معیشت پر بھی منفی اثر ڈال رہی ہے۔”
ان کی گرفتاری کے بعد ترک لیرے کی قدر گر گئی، اور ملک کی مالیاتی منڈیوں میں ہلچل مچ گئی۔ بینچ مارک بی آئی ایس ٹی 100 انڈیکس جمعہ کو تقریباً 8 فیصد کمی کے ساتھ بند ہوا۔
30 سالہ اکت سنک، جو عدالت کے باہر ترکی کا جھنڈا تھامے کھڑے تھے، نے کہا: "ہم آج یہاں اس امیدوار کے حق میں کھڑے ہیں جسے ہم نے ووٹ دیا تھا۔”
انہوں نے مزید کہا کہ جیسے 15 جولائی 2016 کی ناکام بغاوت کے بعد لوگ اردگان کے حق میں سڑکوں پر نکلے تھے، اسی طرح اب وہ امام اوغلو کی حمایت کے لیے سڑکوں پر نکلے ہیں۔
ان کا کہنا تھا: "ہم ریاست کے دشمن نہیں ہیں، لیکن جو کچھ ہو رہا ہے وہ غیر قانونی ہے۔”