رمضان المبارک میں زکوٰۃ کی رقم سے ملازمین کو افطاری کروانے کے بارے میں اکثر لوگ سوال کرتے ہیں کہ کیا ایسا کرنا شریعت کے مطابق درست ہوگا؟ اگر فیکٹری یا دفتر کے ملازمین میں زکوٰۃ کے مستحق افراد موجود ہوں، تو انہیں زکوٰۃ کی رقم سے افطاری کرانے کا ایک مخصوص طریقہ ہے جس کے ذریعے زکوٰۃ بھی ادا ہو جائے گی اور شرعی تقاضے بھی پورے ہوں گے۔ لیکن اگر افطاری کا اہتمام عام دستر خوان کی صورت میں کیا جائے تو زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی۔ آئیے تفصیلات میں جانتے ہیں کہ اس کا صحیح طریقہ کیا ہے۔
سوال: میں ایک فیکٹری چلاتا ہوں جہاں درجنوں مزدور کام کرتے ہیں۔ رمضان کے مہینے میں فیکٹری دن رات چلتی ہے، اور ہم چاہتے ہیں کہ اپنے ملازمین کے لیے افطاری کا اہتمام کریں۔ کیا ہم زکوٰۃ کی رقم سے یہ افطاری کرا سکتے ہیں؟ اگر ہاں، تو ایسا کون سا طریقہ اپنایا جائے جس سے زکوٰۃ بھی ادا ہو اور ملازمین کو افطاری بھی مل سکے؟
جواب:شریعت کے مطابق، اگر آپ زکوٰۃ کی رقم سے ملازمین کو افطاری کرانا چاہتے ہیں، تو اس کے لیے ضروری ہے کہ ہر ملازم کو افطاری کا سامان ان کی ملکیت میں دیا جائے۔ مثلاً، افطاری کے پیکٹ تیار کر کے ہر مستحق ملازم کو الگ الگ دے دیے جائیں۔ ایسا کرنے سے زکوٰۃ بھی ادا ہو جائے گی اور ملازمین کو افطاری بھی مل جائے گی۔
البتہ، اگر افطاری کے لیے دستر خوان بچھا کر عام کھانے کا انتظام کیا جائے، جہاں ملازمین آ کر کھا سکیں، تو یہ زکوٰۃ کے لیے درست نہیں ہوگا کیونکہ اس صورت میں زکوٰۃ کی رقم مستحق افراد کی ملکیت میں نہیں جاتی بلکہ اجتماعی طور پر خرچ ہو جاتی ہے۔
اسی لیے، اگر آپ فیکٹری یا دفتر کے ملازمین کو زکوٰۃ کی رقم سے افطاری کرانا چاہتے ہیں تو پہلے یہ یقینی بنائیں کہ وہ زکوٰۃ کے مستحق ہوں، اور پھر انہیں افطاری کے پیکٹ یا راشن ان کی ملکیت میں دے کر زکوٰۃ کی ادائیگی کریں۔ اس طریقے پر عمل کرنے سے آپ کی زکوٰۃ بھی ادا ہو جائے گی اور افطاری کا اہتمام بھی شریعت کے مطابق ہوگا۔