رمضان کی راتوں میں مسحراتی یا ڈھولی بابے کی صدائیں: ایک قدیم اور انمول روایت

لوگ آج بھی مسحراتی کی آوازیں سننے کی خواہش رکھتے ہیں مگر وہ ہر جگہ دستیاب نہیں ہیں کیونکہ یہ قدیم روایت اب معدوم ہوتی جا رہی ہے۔

رمضان المبارک کا مہینہ عالم اسلام کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ کی بڑی عظیم نعمت ہے۔ اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے انوار و برکات کی ایسی بارش ہوتی ہے جس سے ہر روزہ دار شرابور ہو جاتا ہے۔ اس مبارک مہینے کی قدردانی ہر وہ شخص کرتا ہے جس کی فکر آخرت کے لیے ہوتی ہے۔ اس ماہِ مبارک سے کئی روایات بھی جڑی ہوئی ہیں جو بدلتے زمانے کے ساتھ نئی شکل اختیار کرتی رہی ہیں۔ دنیا بھر کے مختلف اسلامی ممالک میں مختلف اسلامی روایات عرصۂ قدیم سے چلی آ رہی ہیں۔ کچھ روایات آج بھی ان ملکوں میں اسی طرح زندہ ہیں جیسے قدیم دور میں ہوا کرتی تھیں، تاہم کچھ ایسی ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ معدوم ہوتی جا رہی ہیں۔ انہی روایت میں سے ایک ہے سحری کے وقت صدائیں اور ڈھول پر ضربیں لگا کر لوگوں کو بیدار کرنا۔ قدیم زمانے یہ کام ’مسحراتی‘ یا ’ڈھولی بابے‘ کیا کرتے تھے۔

رمضان المبارک میں سحری کی خاص اہمیت ہے کیونکہ روزہ کی شروعات سحری کے بعد سے ہی ہوتی ہے۔ روزہ شروع کرنے سے قبل یعنی فجر کا وقت شروع ہونے سے پہلے تک جو کھانا کھایا جاتا ہے اسے سحری کہتے ہیں اور سحری کے لیے لوگوں کو جگانے کا باضابطہ طور پر اہتمام کیا جاتا رہا ہے۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ سے ہی سحری کے لیے جگانے کی روایت رہی ہے۔ روزہ کی فرضیت کے بعد اہل مدینہ کو سحری میں جگانے کے لیے طریقہ اختیار کرنے پر غور و فکر کیا گیا۔

سن 2 ہجری میں روزہ فرض کیا گیا۔ اس وقت رسول اکرم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں قیام کرتے تھے۔ حضور نے خود جس طرح روزہ رکھا اور اس کا اہتمام عملی طور پر کر کے امت کو بتایا اور سکھایا اس میں افطار اور سحری کو بھی بڑی اہمیت دی گئی۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ ایک صحابی سیدنا بلال بن رباح پہلے شخص تھے جو روزہ فرض ہونے کے بعد مدینہ کی گلیوں میں سحری کے وقت آوازیں لگا کر روحانیت کا شمع باندھ دیتے تھے اور لوگ ان کی آواز سن کر نیند سے بیدار ہو جاتے تھے، پھر سحری تناول فرماتے تھے۔ سیدنا بلال بن رباح کی یہ سنت مدینہ منورہ میں عام ہوتی چلی گئی۔ رفتہ رفتہ دوسرے لوگ بھی نقل کرنے لگے اور یہ خدمت انجام دینے کو اپنی خوش قسمتی تصور کرنے لگے۔ سحری کے لیے جگانے والوں کے ساتھ بچے بھی شوق سے شامل ہو جاتے۔

عربی زبان میں سحری کے لیے جگانے والوں کو ’مسحراتی‘ کہتے ہیں، جو سحور یا سحری سے ماخوذ ہے۔ مدینہ منورہ کے بعد عرب کے دوسرے شہروں میں بھی سحری کے لیے جگانے کی روایت قائم ہو گئی اور پھر یہ سلسلہ پوری اسلامی دنیا میں پھیل گیا۔ مسحراتی اپنا یہ فریضہ فی سبیل اللہ انجام دیا کرتے تھے، لیکن ان کی خدمت سے مستفید ہونے والے مسلمان ان کی عزت افزائی کرتے تھے اور رمضان کے آخری دنوں میں انہیں عیدی کے طور پر انعام دیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ مساجد کے امام مسجدوں کی چھتوں یا میناروں پر چراغ جلا کر رکھ دیتے تھے اور بلند آواز سے لوگوں کو باخبر کرتے تھے کہ ’سحری کا وقت ہو چکا ہے، روزہ دار حضرات نیند سے بیدار ہوجائیں اور سحری کھالیں‘۔ جہاں آواز نہیں پہنچ پاتی تھی، لوگ چراغ کی روشنی دیکھ کر اندازہ لگا لیتے تھے کہ سحری کا وقت ہو گیا ہے۔

ایران کے ماژندران میں یہ رسم تھی کہ اولاد نرینہ کی تمنا رکھنے والے لوگ پورے ماہِ رمضان میں سحری کے لیے مسحراتی کا کردار ادا کرتے تھے۔ یہ رسم اب تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ سحری کے موقع پر حلوہ تقسیم کرنا اس خطے کے لوگوں کی ایک اہم رسم ہے جو 15 رمضان المبارک کی شب امام حسن علیہ السلام کی ولادت کے موقع پر ادا کی جاتی ہے۔

سحری کے لیے بیدار کرنا قُم کی عام رسم تھی۔ بعض لوگ سحری کے وقت مخصوص دعائیں پڑھتے تھے یا ڈھول بجا کر لوگوں کو بیدار کرتے تھے۔ آج جدید تکنیک کے سبب یہ رسومات ختم ہو گئی ہیں۔ خراسان جنوبی میں یہ رسم رائج تھی کہ سحری کے وقت تین مرتبہ ڈھول بجایا جاتا تھا۔ پہلی مرتبہ سحری تیار کرنے کے لیے، دوسری مرتبہ سحری کھانے کے لیے اور تیسری مرتبہ سحری ختم کر کے نماز فجر کی ادائیگی کے لیے تیار کرتے۔ ڈھول بجانے کے ساتھ دعائیں اور مناجات خوانی کا سلسلہ بھی جاری رہتا تھا۔

مسحراتی کے بارے میں مشہور بات ہے کہ وہ ڈھول بجاتا ہے اور اس پر تین ضربیں لگاتا ہے۔ وہ اپنی بلند آواز سے ڈھول کی تھاپ کے ساتھ ایسی آوازیں دیتا ہے جو رات کی خاموشی توڑ دیتی ہے۔ عام طور پر ان آوازوں کے ساتھ کچھ مذہبی گیت بھی ہوتے ہیں۔ وہ گلی گلی گھومتا ہے اور ہر ایک کا نام لے کر پکارتا ہے کہ سحری کا وقت ہو گیا، جاگ جاؤ۔

اسلامی ریاست میں رمضان کے مہینے میں مسحراتی کا پہلا کردار موذن بلال بن رباح اور ابن ام کلثوم نے ادا کیا۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ فجر کی نماز سے پہلے باہر نکلتے تھے اور لوگوں کو سحری کے لیے اٹھاتے تھے۔ گلیوں اور سڑکوں میں سب سے پہلے بلالؓ بطور موذن گھومتے تھے۔ اذان دیتے تھے تو لوگ اٹھ کر سحری کھاتے تھے۔ ابن ام کلثوم آواز دیتے تھے کہ کھانا پینا بند کرو تو لوگ کھانے سے گریز کرتے تھے۔ پھر اسلامی ریاست کی وسعت کے ساتھ مسحراتی نے بھی وسعت اختیار کر لی اور مختلف اسلامی ممالک میں بوقت سحری جگانے کا سلسلہ شروع ہوا۔

مصر میں تقریباً 12 صدی قبل مسحراتی کا رواج شروع ہوا تھا۔ خاص طور پر سن 853ء میں مسحراتی کو مصر میں مقبولیت حاصل ہوئی۔ مصر میں عباسی گورنر اسحق ابن عقبیٰ نے اس خیال کو منتقل کیا تھا۔ عراق میں سب سے مشہور شخص جس نے مسحراتی کا پیشہ اختیار کیا تھا وہ ’ابن نقطہ‘ تھا۔ اسے عباسی خلیفہ کے اہل خانہ کو سحری کے لیے جگانے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ اس کی آواز خوبصورت تھی اور بہت سے اشعار یاد تھے، جس کے ذریعہ تصوف اور زہد کے لیے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوتی تھی۔ مصر کے عباسی گورنر اسحق بن عقبہ رمضان المبارک میں رات کے وقت قاہرہ کی سڑکوں میں پھرتے ہوئے آوازیں دیتے تھے۔ یعنی سحری کے لیے لوگوں کو جگاتے تھے۔ وہ روزانہ فوج کے شہر سے مسجد عمرو ابن العاص تک چلتے تھے اور سڑکوں میں یہ آواز دیتے تھے ’لوگوں سحری کھاؤ کیونکہ سحری میں برکت ہے‘۔ طویل عرصے سے گورنر کے ذریعہ خود یہ کام انجام دیے جانے کے بعد مصر میں مسحراتی کے پیشہ نے عزت اور وقار حاصل کر لیا۔ فاطمی بادشاہت کے دور میں یہ پیشہ ایک بنیادی رواج بن گیا۔

سعودی عرب میں آج بھی سحری کے لیے اذان دیے جانے کی سنت کی پیروی کی جاتی ہے۔ مسحراتی کا کردار بھی مخصوص علاقوں میں ادا کیا جاتا ہے۔ سحری کا وقت شروع ہونے پر مساجد کی میناریں روشن کر دی جاتی ہیں اور وقت ختم ہوتے ہی روشنی ختم کر دی جاتی ہے جس سے لوگوں میں سحری کا وقت شروع اور ختم ہونے کا پیغام پہنچ جاتا ہے۔

اب جدید دور میں ہر ہاتھ میں موبائل آ جانے اور الارم اور مختلف قسم کے پسندیدہ الارم کی سہولت حاصل ہو جانے کے سبب مسحراتی کا رواج رفتہ رفتہ کم ہوتا جا رہا ہے۔ الارم بجتے ہی لوگ سحری کے لیے نیند سے بیدار ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی سہولت ہو گئی ہے کہ ایک نہیں، وقفے وقفے سے کئی بار الارم بجے یہ بھی پہلے سے طے کر دیا جاتا ہے۔ اس لیے اب سحری کے لیے بیدار ہونا جدید تکنیک کے سہارے بہت آسان ہو گیا ہے۔ حالانکہ مسحراتی کی قدیم روایت میں جو روحانیت تھی اور جس طرح کا ایمانی جذبہ بیدار ہوتا تھا، اس کا جدید تکنیک کے سبب فقدان پیدا ہو گیا ہے۔ لوگ آج بھی مسحراتی کی آوازیں سننے کی خواہش رکھتے ہیں مگر وہ ہر جگہ دستیاب نہیں ہیں کیونکہ یہ قدیم روایت اب معدوم ہوتی جا رہی ہے۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین