ٹرمپ کی ویزا پابندیاں چین کے اتحادی ممالک کو نشانہ بنا رہی ہیں، مگر یہ حکمت عملی الٹی پڑ سکتی ہے۔ متاثرہ ممالک امریکہ سے دور ہو کر چین کے قریب جا سکتے ہیں، جس سے بیجنگ کا عالمی اثر مزید بڑھے گا
جب ڈونلڈ ٹرمپ 2017 میں پہلی بار امریکہ کے صدر بنے تو ان کے ابتدائی اور متنازع اقدامات میں سے ایک سفری پابندی تھی، جسے عموماً ’مسلمانوں پر پابندی‘ قرار دیا گیا۔ اس فیصلے کے تحت یمن، شام، ایران، لیبیا اور صومالیہ جیسے مسلم اکثریتی ممالک کے شہریوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ اس اقدام کو امتیازی قرار دے کر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور امریکہ بھر میں مظاہرے اور قانونی جنگیں شروع ہو گئیں۔ تاہم 2018 میں امریکی سپریم کورٹ نے اس پابندی کو برقرار رکھا، جس سے امیگریشن کے معاملے پر ٹرمپ کے سخت موقف کو تقویت ملی، خاص طور پر مسلم ممالک کے خلاف۔
اب ٹرمپ اپنے دوسرے دورِ صدارت کے پہلے 50 دنوں میں اس سے بھی وسیع سفری پابندی نافذ کر رہے ہیں، جس سے تقریباً 43 ممالک متاثر ہوں گے۔ اس بار مسلم ممالک کے بجائے چین کے قریبی اقتصادی یا سکیورٹی شراکت دار نشانے پر ہیں۔ ان میں پاکستان، لاؤس، میانمار، ترکمانستان اور کئی افریقی ممالک شامل ہیں، جہاں چینی سرمایہ کاری زیادہ ہے۔
پہلی پابندی مذہبی اور سکیورٹی بنیادوں پر تھی، مگر نئی حکمت عملی اقتصادی اور جغرافیائی سیاسی مقاصد پر مبنی ہے۔ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) سے فائدہ اٹھانے والے افریقی اور ایشیائی ممالک اس فہرست میں شامل ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ ان پر دباؤ ڈال کر چین پر ان کا انحصار کم کرنا چاہتی ہے۔
ٹرمپ کی پہلی سفری پابندی اسلام کو قومی سلامتی کے خطرے سے جوڑنے والی بیان بازی سے متاثر تھی۔ تاہم، اپنے دوسرے دورِ صدارت میں ان کی توجہ بدل چکی ہے۔ اب اس فہرست میں ایران، وینزویلا اور شمالی کوریا جیسے امریکہ مخالف ممالک کے ساتھ ساتھ پاکستان، بیلاروس، کمبوڈیا اور کئی افریقی ممالک شامل ہیں، جنہیں نشانہ بنا کر چین کے اثر و رسوخ کو محدود کرنے کی حکمت عملی نظر آتی ہے۔
اس فہرست میں ہیٹی اور بھوٹان غیر متعلقہ معلوم ہو سکتے ہیں، مگر چین نے حال ہی میں ہیٹی میں اقوامِ متحدہ کے امن مشن کی توسیع کی حمایت کی تھی اور وہاں استحکام کے لیے عزم کا اظہار کیا تھا۔ اسی طرح 2017 میں ہندوستان کے ساتھ ڈوکلام تنازع کے بعد چین اور بھوٹان کے تعلقات میں بہتری آئی ہے۔
پہلی پابندی کو مذہبی اور سلامتی کے جواز پر جائز ٹھہرایا گیا تھا، لیکن یہ نئی پالیسی اقتصادی اور جغرافیائی سیاسی مقاصد پر مبنی ہے، یعنی چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنا۔ ان میں سے کئی افریقی اور ایشیائی ممالک چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کے تحت بنیادی ڈھانچے، بجلی اور ٹیکنالوجی میں چینی سرمایہ کاری سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ ان پر دباؤ ڈال کر چین پر ان کے انحصار کو کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
یہ حکمت عملی امریکہ اور چین کی بڑھتی ہوئی رقابت کو ظاہر کرتی ہے۔ ٹرمپ چین کے عالمی اثر و رسوخ کو محدود کرنے پر زور دیتے رہے ہیں، خاص طور پر تجارت، فوجی طاقت اور عالمی اتحادوں میں۔ تاہم، ان ممالک پر سفری پابندیاں الٹا اثر ڈال سکتی ہیں۔ ان ممالک کے امریکہ سے دور ہو کر چین کے قریب ہونے کا خدشہ ہے، کیونکہ ان کے پاس بیجنگ کے ساتھ تعلقات مستحکم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچے گا۔
یہ پہلی بار نہیں کہ امریکہ ایسی غلطی کر رہا ہے۔ کئی سالوں سے واشنگٹن افریقہ میں چین کے بڑھتے اثر و رسوخ پر تشویش ظاہر کرتا آیا ہے، مگر دوسری طرف اس خطے میں اس کا اپنا رابطہ کم ہو رہا ہے۔ 2024 میں چین اور افریقہ کے درمیان تجارت تقریباً 296 ارب ڈالر تک پہنچ گئی، جبکہ اسی مدت میں امریکہ اور سب صحارا افریقہ کے درمیان تجارت صرف 72 ارب ڈالر تھی۔ چین نے افریقی بنیادی ڈھانچے اور ترقیاتی منصوبوں پر اربوں ڈالر خرچ کیے ہیں، جبکہ امریکہ نے زیادہ تر پابندیوں اور شرائط پر انحصار کیا ہے۔ نتیجتاً، افریقی ممالک چین کو زیادہ قابلِ بھروسہ شراکت دار سمجھنے لگے ہیں۔
اگر امریکہ اسی روش پر چلتا رہا تو وہ ترقی پذیر ممالک کو خود سے مزید دور کر دے گا اور وہ بیجنگ کے اثر و رسوخ میں اور مضبوطی سے شامل ہو جائیں گے۔
ٹرمپ کی یہ حکمت عملی امریکہ کے سفارتی اور اقتصادی اثر و رسوخ کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہے۔ ایشیا اور افریقہ کے کئی ممالک تاریخی طور پر امریکہ اور چین دونوں سے تعلقات رکھتے ہیں۔ ویزا پابندیاں نہ صرف ان کے سفارتی تعلقات کو متاثر کریں گی بلکہ امریکی کمپنیوں کے لیے ان بازاروں میں مسابقت بھی مشکل بنا دیں گی، جہاں چین پہلے ہی حاوی ہے۔
اس کے علاوہ، یہ ویزا پابندیاں امریکہ کی عالمی برتری کو کمزور کر سکتی ہیں۔ ٹرمپ کے پہلے دور میں ان کی سفری پابندیوں کو انسانی حقوق کے گروپوں اور عالمی اتحادیوں کی جانب سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اب چین کے اقتصادی شراکت داروں کو نشانہ بنانے والی یہ پالیسی بڑے پیمانے پر ردعمل کو جنم دے سکتی ہے۔
ٹرمپ کی امیگریشن پالیسی اب قومی سلامتی کے بجائے اقتصادی اور سیاسی مفادات کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ تاہم یہ حکمت عملی چین کو محدود کرنے کے بجائے اس کے اثر و رسوخ میں اضافے کا سبب بن سکتی ہے۔
ٹرمپ کے پہلے دورِ صدارت میں ان کی سفری پابندی کو وسیع پیمانے پر اسلام مخالف قرار دیا گیا تھا، مگر ان کے دوسرے دور میں اس کا مقصد مختلف ہے – چین کے اتحادیوں اور اقتصادی شراکت داروں کو نشانہ بنانا۔ تاہم، چین کو الگ تھلگ کرنے کے بجائے یہ پالیسی الٹا اس کے اثر و رسوخ کو مزید مضبوط بنا سکتی ہے۔ امریکہ کو افریقہ میں اپنی ناکام حکمت عملی سے سبق سیکھنا چاہیے: جب اقتصادی مواقع داؤ پر ہوں تو دھمکیاں اور پابندیاں مؤثر ثابت نہیں ہوتیں۔ اگر واشنگٹن واقعی چین کے اثر کو کم کرنا چاہتا ہے تو اسے صرف رسائی محدود کرنے کے بجائے ترقی پذیر ممالک کو مسابقتی متبادل فراہم کرنے چاہئیں۔ ان ممالک کو خود سے دور کرنے کے بجائے امریکہ کو ان کے ساتھ اقتصادی روابط کو بڑھانے، سرمایہ کاری کو فروغ دینے اور شراکت داری کو مضبوط کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔ بصورتِ دیگر، یہ سفری پابندیاں عالمی تجارت اور سفارت کاری میں چین کے کردار کو مزید وسعت دینے میں معاون ثابت ہوں گی۔