رواں ہفتہ پاکستان بھر میں حکومت کے ایما پر ایک مہم چلائی گئی کہ عالمی سطح پر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہوئی ہیں لہٰذا اس کمی کا فائدہ عوام تک پہنچایاجائے گا۔ ایک امید کا دیا روشن ہوا، تبصرے شروع ہو گئے ، کسی نہ کہا 8 روپے، کسی نہ کہا 10روپے تک قیمتیں کم ہونے جارہی ہیں اور اس سے پیٹرول کی قیمت 250 روپے فی لیٹر سے نیچے آ جائے گی یعنی موٹر سائیکل سواروں، چنگ چی چلانے والوں کو 1 ہزار روپے میں 4 لیٹر سے زائد پیٹرول ملنا شروع ہو جائے گا، یہ ایک حقیقت ہے کہ اس ملک میں کروڑوں مزدور خاندانوں کا روزگار براہ راست سستے پیٹرول سے جڑا ہوا ہے، جب پٹرول کی قیمت بڑھتی ہے تو غریب خاندانوں کے بچوں کے نوالے کم ہو جاتے ہیں اور جب پٹرول کی قیمت کم ہوتی ہے تو ان کروڑوں خاندانوں کو روٹی کے دو نوالے زیادہ کھانے کو مل جاتے ہیں۔ ٹیکسی، رینٹ اے کار، پبلک ٹرانسپورٹ سے لیکر ٹیلرز، پیکو ماسٹرز، گنے کا تازہ رس بیچنے والوں، جوس فروش، چائے ڈھابے کے کاروبارسمیت درجنوں کاروبار ایسے ہیں جن کے اچھے منافع کا انحصار سستے پیٹرول سے جڑا ہوا ہے، لوگ رات 12 بجے تک منتظررہے کہ وزیراعظم قیمتوں میں کمی کا اعلان کرنے ہی والے ہیں مگر یکا یک پتہ چلا پیٹرولم مصنوعات کی قیمتیں برقرار رکھی گئی ہیں اور اس ریلیف کا رخ بلوچستان کی ترقی اور کینالز کی تعمیر کی طرف موڑا جائے گا، اس اطلاع نے متلاطم جذبات پر گلیشیئرز گرادئیے، نہایت مایوس کن اعلان تھا ، بلوچستان کی ترقی کے لئے کیا بلوچستان کے پہاڑوں اور زمین کے نیچے دبے ہوئے ہیرے جواہرات ،پٹرول، گیس کے خزانے اور گوادر سی پورٹ جیسی دنیا کی عظیم کاروباری سرگرمی ناکافی ہے؟ دیگر 3صوبوں کے غریب عوام توقع رکھتے ہیں کہ سونے ،چاندی اور معدنیات سے مالا مال بلوچستان اب اُن کی کفالت کرے مگر معاملہ الٹا ہے، حقیقت اللہ بہتر جانتا ہے جس بلوچستان کی معدنیات کو ہر پانچ، دس سال کے بعد گیم چینجر قرار دیا جاتا ہے اُسی بلوچستان کی کفالت کے لئے موٹر سائیکل والوں کو مہنگا پٹرول دینے کے منصوبے بن رہے ہیں۔ آج کل وفاق کی حکومت ہو یا صوبوں کی سب اپنی امیج بلڈنگ کے لئے سوشل میڈیا پر اربوں روپے خرچ کررہے ہیں مگر جب سوشل میڈیا پر نگاہ ڈالی جاتی ہے تو حکومت کے بارے میں ہتک آمیز کارٹونز چل رہے ہوتے ہیں،میمز بن رہی ہوتی ہیں، ابھی حال ہی میں حکومت نے اپنی امیج بلڈنگ کے لئے اربوں روپے خرچ کرکے اوور سیز کنونشن کیا مگر اس پر بھی طرح طرح کے دل جلادینے والے تبصرے ہو رہے ہیں، ان اوورسیز انویسٹرز کا آپریشن کیا جارہا ہے، کوئی انہیں انویسٹر ماننے کے لئے تیار ہی نہیں ہے، ایسے ماحول میں حکومت سے گزارش ہے کہ وہ اگر اپنی امیج بلڈنگ بہترکرنا چاہتی ہے تو پیسے ضائع نہ کرے بلکہ وہ بجلی، گیس، پٹرول اور اشیائے خورونوش کی قیمتیں بتدریج سستی کرے، ہر ہفتے کسی ایک چیز کی قیمت میں کمی لانے کا اعلان کیا جائے، جب کوئی موٹر سائیکل سوار پٹرول پمپ پر جائے گا اور اُسے گزشتہ روز کی نسبت سستا پٹرول ملے گا تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ آئے گی، اُسے محسوس ہو گا کہ بیٹھے بیٹھے اُس کی آمدن بڑھ گئی اور وہ اس بچت سے اپنے بچوں کے لئے کوئی کھانے کی چیز لے جائے گا، سوچیں جب موٹر سائیکل سوار خوش ہو گا تو کیا حکومت کا امیج اس کے دل میں بہتر نہیں ہو گا؟، اگر اس نے دعا نہ بھی دی تو کم از کم بددعائیں دینے والوں کی صف میں کھڑا نہیں ہو گا اور پھر حکومت شوق سے رات کے ٹاک شوز میں تعریفی پروگرام چلوائے پی ٹی آئی کے مقامی سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ تو کیا بیرونی دنیا کے ایکٹیوسٹ بھی اس مثبت امیج کو منفی نہیں بناسکیں گے، حکمران اپنا امیج بہتر کرنا چاہتے ہیں تو روٹی سستی کریں، دودھ ،دہی سستا کریں، دوائیاں سستی کریں، بجلی، گیس سستا کریں، سبسڈی دینے کی بات نہیں ہو رہی بلکہ جن امپورٹڈ اشیا کی قیمتیں عالمی سطح پر کم ہو رہی ہیں اسی شرح کے حساب سے فائدہ عوام کو منتقل کیا جائے،سوشل میڈیا پر اربوں روپے کی چلنے والی حکومتی کارکردگی مہمات کا پیغام پتہ نہیں عوام تک پہنچتا ہے کہ نہیں مگر جب کسی موٹر سائیکل سوار کو سستا پٹرول ملے گا، بجلی کاسستا بل ملے گا تو وہ پیغام اس کی روح تک اثر کرے گا، اس کے چہرے پر مسکراہٹ آئے گی اور یہ کام اتنا مشکل نہیں ہے، حکومت عوام کے لیے تھوڑے تھوڑے ریلیف ارینج کرتی رہے اور تو اور عوام فارم 45اور فارم 47کی بحث سے بھی باہر نکل جائیں گے، بھرا ہوا پیٹ خیر کی علامت ہوتا ہے اور خالی پیٹ ہر قسم کے خیر کو نگل جاتا ہے، جہاں دیدہ حکمران اس فلاسفی کو سمجھنے کی کوشش کریں، بلوچستان کی ترقی اور نئی نہریں بنانے کے لئے بے شک قرضے لے لیں مگر عوام کے حق پر ڈاکہ نہ ڈالیں، حکومت اگر چاہتی ہے کہ اس کا امیج بہتر ہو جائے تو پھر تمام اراکین اسمبلی اس بات کا عہد کریں کہ وہ اس پارلیمنٹ میں عوام کے رزق اور سکون کو محدود کرنے والی کوئی قانون سازی نہیں ہونے دیں گے تو اس پارلیمنٹ کا وقار بھی بحال ہو جائے گا، آگے آپ مرضی۔
حکومت، امیج بلڈنگ اور چند تجاویز
بلوچستان کی معدنیات کو ہر پانچ، دس سال کے بعد گیم چینجر قرار دیا جاتا ہے اُسی بلوچستان کی کفالت کے لئے موٹر سائیکل والوں کو مہنگا پٹرول دینے کے منصوبے بن رہے ہیں