دیوار پر آتی دراڑیں

یہ صرف ایک مکان کی کہانی نہیں، بلکہ ہماری پوری سوسائٹی کا المیہ ہے

تحریر: ایم اے زیب رضا خان

ایک دن ایک گاؤں میں ایک بڑھئی نے دیکھا کہ اس کے گھر کی دیوار میں ایک معمولی سی دراڑ آ گئی ہے۔ اس نے سوچا کہ یہ کوئی بڑی بات نہیں، ابھی یہ دیوار سلامت ہے، بعد میں مرمت کر لی جائے گی۔ دن گزرتے گئے، دراڑ تھوڑی اور پھیل گئی، لیکن بڑھئی اپنے روزمرہ کے کاموں میں مصروف رہا اور نظرانداز کرتا رہا۔

ایک دن اس کے دوست نے کہا، "یہ دراڑ بڑی ہو رہی ہے، اسے جلدی ٹھیک کر لو۔” بڑھئی نے ہنستے ہوئے کہا، "یہ میرا مسئلہ نہیں، یہ ابھی اتنی خطرناک نہیں۔” پڑوسی نے بھی یہی مشورہ دیا، لیکن بڑھئی نے سننے سے انکار کر دیا۔
کچھ ہی مہینے بعد شدید طوفان آیا، اور وہی دراڑ جو ایک چھوٹی سی لکیر تھی، اب اتنی بڑی ہو چکی تھی کہ پوری دیوار گر گئی، اور گھر تباہ ہو گیا۔ بڑھئی کو اب احساس ہوا کہ اگر اس نے پہلے ہی اس دراڑ کو بھر دیا ہوتا، تو آج اسے اپنا نقصان نہ اٹھانا پڑتا۔ لیکن اب وقت ہاتھ سے نکل چکا تھا۔
یہ صرف ایک مکان کی کہانی نہیں، بلکہ ہماری پوری سوسائٹی کا المیہ ہے۔ جب بھی کسی پر ظلم ہوتا ہے، کوئی ناانصافی ہوتی ہے، تو ہم یہی کہتے ہیں کہ "یہ میرا مسئلہ نہیں۔” ہم اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ اگر ہم آج کسی اور کے حق کے لیے نہ کھڑے ہوئے، تو کل ہماری باری بھی آ سکتی ہے۔

آج ہم معاشرتی بے حسی کے ایک ایسے دور میں داخل ہو چکے ہیں جہاں ہمیں دوسروں کے مسائل سے کوئی غرض نہیں۔ اگر کوئی بھوکا ہے، کوئی بے گھر ہے، کسی پر ظلم ہو رہا ہے، تو ہم صرف تماشائی بن کر رہ جاتے ہیں۔ محلے میں اگر کوئی مظلوم ہے، تو ہم خاموش رہتے ہیں۔ اگر کسی کی عزت پامال ہو رہی ہے، تو ہم منہ موڑ لیتے ہیں۔ لیکن جب یہی سب ہمارے ساتھ ہوتا ہے، تب ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہم بھی اسی دیوار کے گرنے کا انتظار کر رہے تھے۔
یہی بے حسی مسلم ریاستوں کے حالات میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ کشمیر میں ظلم ہوتا رہا، فلسطین میں معصوم بچوں کو مارا جاتا رہا، شام، یمن، افغانستان، برما، لیبیا جیسے ممالک میں خون بہتا رہا، مگر مسلم دنیا نے اپنی بے حسی کی دیوار کو گرنے سے نہ روکا۔ ہر ملک اپنے مفاد میں مگن رہا، ہر قوم نے کہا کہ "یہ ہمارا مسئلہ نہیں۔” لیکن آج جب حالات سب کے سامنے آ رہے ہیں، تو ہمیں معلوم ہو رہا ہے کہ یہ ظلم کا طوفان صرف کسی ایک دروازے پر نہیں رکنے والا، بلکہ یہ سب کچھ بہا کر لے جائے گا۔

خاص طور پر اس عید پر فلسطین اور غزہ کی سرزمین، جہاں خوشیوں کے بجائے خون کے آنسو بہائے جا رہے ہیں ، جہاں بچوں کی ہنسی کی جگہ ان کی چیخیں سنائی دیتی ہیں، جہاں ہر گلی، ہر کوچہ ایک نوحہ بن چکا ہے، لیکن دنیا خاموش ہے۔ یہ وہی امت مسلمہ ہے جسے ایک جسم کی مانند ہونا تھا، جہاں ایک عضو کو تکلیف ہو تو پورا جسم تڑپ اٹھے، لیکن آج فلسطین میں بہنے والا خون صرف وہاں کی زمین کو رنگین کر رہا ہے، باقی امت مسلمہ کی آنکھیں، دل اور ضمیر سو چکے ہیں۔
مسلمانوں کو جوڑنے والی رسی کمزور ہو چکی ہے، ہم قوموں، فرقوں اور مفادات میں بٹ چکے ہیں۔ ہم نے اپنی تاریخ بھلا دی، اپنی میراث چھوڑ دی، اور نتیجہ یہ نکلا کہ آج جب ہم پر ظلم ہو رہا ہے تو کوئی آواز اٹھانے والا نہیں۔ ہم سوچتے ہیں کہ یہ میرا مسئلہ نہیں، لیکن کیا ہم بھول گئے کہ اگر آج فلسطین جل رہا ہے، تو کل ہمارے دروازے پر بھی یہی آگ آ سکتی ہے؟ اگر آج ہم خاموش رہے تو کل ہم بھی اسی آگ کی لپیٹ میں ہوں گے۔

پاکستان ، جو ایک اسلامی نظریاتی ریاست کے طور پر وجود میں آیا تھا، وہ بھی اسی بے حسی کا شکار ہو چکا ہے۔ اندرونی اور بیرونی سازشیں بڑھ رہی ہیں، معیشت زوال پذیر ہے، عدل و انصاف کا نظام کمزور ہو چکا ہے، اور عوام بے یار و مددگار کھڑے ہیں۔ لیکن ہم ابھی بھی خاموش ہیں، ابھی بھی یہی سوچ رہے ہیں کہ "یہ ہمارا مسئلہ نہیں۔”
ہمیں سمجھنا ہوگا کہ جب ایک مسلمان پر ظلم ہوتا ہے، تو پورا عالمِ اسلام متاثر ہوتا ہے۔ ہمیں اپنی بے حسی کے خول سے باہر آنا ہوگا۔ اگر ہم آج بھی خاموش رہے، تو کل ہماری اپنی دیوار گر جائے گی، اور پھر کوئی ہمارا ساتھ دینے والا نہیں ہوگا۔

یہ وہ وقت ہے جب ہمیں متحد ہونا ہوگا، اپنے ضمیر کو جھنجھوڑنا ہوگا، اور ظالم کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا۔ کیونکہ یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود! ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا ہوگا، ورنہ تاریخ ہمیں بھی ان قوموں کی فہرست میں شامل کر دے گی جو ظلم سہتی رہیں اور پھر مٹ گئیں۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین