کراچی کا نیا روپ: خوبصورتی کا وعدہ

یہ کوئی خواب نہیں، بلکہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کی طرف ہم بڑھ رہے ہیں

تحریر: غلام مرتضی

تصور کریں ایک ایسا کراچی جہاں دیواریں چاکنگ سے پاک ہوں، تاریخی عمارتیں اپنی پوری شان سے جگمگائیں، اور سڑکوں کے کنارے مقامی درخت شہر کی دھوپ میں مسکرائیں۔ یہ کوئی خواب نہیں، بلکہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کی طرف ہم بڑھ رہے ہیں۔ میئر کراچی بیرسٹر مرتضیٰ وہاب کے حالیہ فیصلوں نے اس شہر کے دل کو چھو لیا ہے—ایک شہر جو سمندر کی لہروں کی طرح ہر پل جدت مانگتا ہے۔ یہ کالم نہ تو کسی سیاسی جماعت کی خوشامد ہے اور نہ ہی محض الفاظ کا کھیل۔ یہ اس جذبے کی قدر ہے جو کراچی کو اس کا کھویا ہوا رتبہ واپس دلانا چاہتا ہے۔ کوئی بھی ہو، جو اس شہر کی بہتری کے لیے کام کرے، اس کی ہر کوشش ہمارے دلوں میں گونجے گی۔

حال ہی میں کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) کے ہیڈ آفس میں ہونے والے کراچی بیوٹیفکیشن ٹاسک فورس کے اجلاس میں میئر نے شہر کی خوبصورتی کو چار چاند لگانے کے لیے کئی اہم ہدایات دیں۔ انہوں نے کہا کہ شہر بھر کی دیواروں اور سڑکوں پر کی گئی چاکنگ کو فوری طور پر مٹایا جائے۔ یہ چاکنگ شہر کے چہرے پر دھبے کی طرح ہیں، جو نہ صرف اس کی خوبصورتی کو خراب کرتی ہیں بلکہ ایک غیر منظم معاشرے کی تصویر بھی پیش کرتی ہیں۔ میئر نے واضح کیا کہ اس عمل کے ذمہ داروں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہوگی۔ یہ سخت فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ شہر کو صاف ستھرا رکھنے کے لیے مضبوط ارادے موجود ہیں۔

اجلاس میں کمشنر کراچی حسن نقوی، ڈی آئی جی ٹریفک پیر محمد شاہ، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کے سربراہ، مختلف اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز، اور دیگر بلدیاتی اداروں کے حکام شریک تھے۔ یہ منظر ایک اجتماعی عزم کی عکاسی کرتا ہے کہ کراچی کی بہتری کے لیے سب مل کر کام کریں گے۔ میئر نے ایک اور اہم ہدایت دی کہ پلوں اور فلائی اوورز کے نیچے خیراتی اداروں کے قائم کردہ فوڈ ڈسٹری بیوشن پوائنٹس بند کیے جائیں۔ خیرات کا جذبہ یقیناً قابلِ قدر ہے، لیکن ایسی جگہوں پر ہجوم اور افراتفری شہر کے نظم کو متاثر کرتی ہے۔ یہ فیصلہ شہری ڈھانچے کو منظم کرنے کی ایک کوشش ہے۔

کراچی کی تاریخی وراثت کو محفوظ رکھنے کے لیے میئر نے اہم سڑکوں کے ساتھ موجود تاریخی عمارتوں کے تحفظ پر زور دیا۔ انہوں نے بتایا کہ عبداللہ ہارون روڈ پر 16 تاریخی عمارتیں ہیں، جو شہر کی ثقافتی شناخت کا قیمتی حصہ ہیں۔ یہ عمارتیں نہ صرف ہمارے ماضی کی گواہی دیتی ہیں بلکہ سیاحوں کے لیے بھی کشش کا باعث بن سکتی ہیں۔ اسی طرح، آئی آئی چندریگر روڈ پر سائن بورڈز کو ڈیجیٹل کرنے کی تجویز ایک ایسی سوچ کی عکاس ہے جو روایت اور جدت کو ملاتی ہے۔ ڈیجیٹل سائن بورڈز نہ صرف شہر کو جدید شکل دیں گے بلکہ کاروباری مراکز کی دلکشی میں بھی اضافہ کریں گے۔

ایک اور قابلِ تحسین فیصلہ سڑکوں کے کنارے کونوکارپس کے پودوں اور درختوں کو ہٹا کر ان کی جگہ کراچی کے روایتی درخت لگانے کا ہے۔ یہ نہ صرف ماحولیاتی طور پر دانشمندانہ اقدام ہے بلکہ شہر کی مقامی شناخت کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ کونوکارپس کے درخت پانی کے زیادہ طلبگار ہوتے ہیں، جبکہ مقامی درخت کراچی کے موسم اور ماحول کے لیے زیادہ موزوں ہیں۔ اس سے شہر کا سبزہ بڑھے گا اور اس کی خوبصورتی مقامی رنگوں میں ڈھل جائے گی۔

اجلاس میں آئی آئی چندریگر روڈ، عبداللہ ہارون روڈ، شارع فیصل، شاہراہ پاکستان، اور کارساز روڈ کی خوبصورتی کے منصوبوں پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ یہ سڑکیں کراچی کی شہ رگ ہیں، اور انہیں نہ صرف خوبصورت بلکہ شہریوں کے لیے زیادہ سہل بنانے کی ضرورت ہے۔ میئر نے سوسائٹی قبرستان کی بیرونی دیوار کو جمالیاتی انداز میں ڈیزائن کرنے کی ہدایت دی، جو سڑک کی دلکشی کو بڑھائے گی۔ اسی طرح، شارع فیصل پر شادی ہالز کے لیے پارکنگ کی سہولتوں کو بہتر بنانے اور سروس روڈز کو اپ گریڈ کرنے کا فیصلہ شہریوں کی روزمرہ زندگی کو آسان بنانے کی طرف ایک اہم قدم ہے۔

یہ تمام فیصلے اس عزم کا ثبوت ہیں کہ کراچی کو ایک منظم، خوبصورت، اور جدید شہر بنانا ممکن ہے۔ جو بھی اس شہر کی بہتری کے لیے مخلصانہ کوشش کرے گا—چاہے وہ کسی بھی جماعت سے تعلق رکھتا ہواس کی قدر ہر کراچی والے کے دل میں ہوگی۔ لیکن، ان فیصلوں کی کامیابی عملدرآمد پر منحصر ہے۔ شفافیت، وقت کی پابندی، اور شہریوں کی شمولیت اس سفر کو کامیاب بنائے گی۔ کراچی وہ شہر ہے جو ہر مشکل حالات میں بھی اپنی چمک برقرار رکھتا ہے، اور اب وقت ہے کہ ہم اس کی چمک کو دنیا کے سامنے پیش کریں۔

آخری بات

کراچی کے لیے یہ فیصلے ایک نئے عہد کی شروعات ہیں، جیسے کوئی پرانا گیت نئے سر میں گایا جا رہا ہو۔ آئیے، اس شہر کو وہ مقام دیں جو اس کا حق ہے! میری تجویز ہے کہ ان منصوبوں میں شہریوں کو شامل کرنے کے لیے باقاعدہ مہمات چلائی جائیں—چاہے وہ درخت لگانے کی صورت میں ہو یا چاکنگ کے خلاف آگاہی پھیلانے کی۔ تاریخی عمارتوں کے تحفظ کے لیے ایک ڈیجیٹل پلیٹ فارم بنایا جائے، جہاں لوگ اپنی رائے اور تصاویر شیئر کر سکیں۔ اس کے علاوہ، سوشل میڈیا پر ان منصوبوں کی پیشرفت کی باقاعدہ اپ ڈیٹس دی جائیں تاکہ ہر شہری خود کو اس تبدیلی کا حصہ سمجھے۔ اور ہاں، کیوں نہ کراچی کی خوبصورتی کے لیے ایک سالانہ فیسٹیول منایا جائے، جہاں اس شہر کی تاریخ، ثقافت، اور مستقبل کو ایک ساتھ سجایا جائے؟ یہ ہے وہ کراچی جو ہم سب کا خواب ہے—ایک شہر جو نہ صرف رہنے کے لیے بہترین ہو بلکہ دنیا کو اپنی کہانی سنانے کے لیے بھی تیار ہو!

متعلقہ خبریں

مقبول ترین