’’آ کے بیٹھے بھی نہ تھے اور نکالے بھی گئے‘‘

انسان فانی ہے مگر اس کا مقصد اگر بلند ہو تو وہ فنا کے بعد بھی زندہ رہتا ہے

تحریر: غلام مرتضی

ہر قوم کی تاریخ میں کچھ ہستیاں ایسی ہوتی ہیں جو وقت کی گرد میں دفن نہیں ہوتیں بلکہ آنے والی نسلوں کے شعور کو جگانے کے لیے ہمیشہ زندہ رہتی ہیں۔ علامہ محمد اقبالؒ بھی ایک ایسی ہی عظیم شخصیت ہیں ۔ آج ہم 21 اپریل کو اُن کا یومِ وفات منارہے ہیں تو درحقیقت ہم اُن کی فکر کو خراجِ عقیدت پیش کررہے ہیں۔

انسان فانی ہے مگر اس کا مقصد اگر بلند ہو تو وہ فنا کے بعد بھی زندہ رہتا ہے۔ علامہ محمد اقبالؒ کی زندگی اس ابدی حقیقت کی روشن مثال ہے۔ وہ صرف چند دہائیوں کے مہمان تھے مگر ان کا پیغام، ان کی فکر، ان کا خواب صدیوں تک زندہ رہنے والا ہے۔ اقبال کی زندگی بھی عام انسانوں کی طرح ایک محدود مدت پر مشتمل تھی مگر اُن کے دل میں ایک بے پناہ آگ تھی،ایک ایسی روشنی جو قوموں کی تقدیر بدل سکتی تھی۔

اقبال جانتے تھے کہ جسم فنا ہوتا ہے، وقت کی گرد اسے مٹا دیتی ہے، مگر وہ افکار جو دلوں کو جھنجھوڑتے ہیں، جو انسان کی خودی کو بیدار کرتے ہیں، وہ وقت سے ماورا ہوتے ہیں۔
اقبال ؒنے غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کی جرأت دی، ان کی شاعری نے امت مسلمہ کو اپنی کھوئی ہوئی عظمت کا احساس دلایا، اور ان کی فکر نے نوجوانوں کو شاہین بننے کا پیغام دیا۔ ان کی نظر ہمیشہ اس دنیا سے آگے تھی، ایک ایسی دنیا جہاں خودی بلند ہو، کردار مضبوط ہو، اور انسان اپنی اصل پہچان کو پہچانے۔

زندگی کی حقیقت کو اقبال نے خوب پہچانا، اور اس کی ناپائیداری کو مقصدِ حیات کی بلندی میں بدل دیا۔ وہ دنیاوی کامیابی کے خواہاں نہیں تھے، انہیں تو اس ملت کو جگانے کا جنون تھا، جسے صدیوں سے غفلت نے جکڑ رکھا تھا۔اقبال نے ہمیں یہ سکھایا کہ زندگی کا اصل کمال اس کے مختصر ہونے میں نہیں، بلکہ اس مختصر زندگی میں ایک عظیم مقصد کو پانے کی جدوجہد میں ہے۔ انہوں نے خودی، عشق، عمل اور یقین جیسے عناصر کو اپنی فکر کا ستون بنایا، اور اپنی قوم کو ایک نئی روح بخشی۔
اقبال کی نگاہ غلامی کے زنجیروں سے کہیں آگے دیکھتی تھی۔ وہ اس امت کی نیند سے پریشان تھے، وہ نوجوانوں کے کندھوں پر اُمت کا بوجھ دیکھتے تھے، اور انہیں شاہینوں کی پرواز پر یقین تھا۔ ان کے الفاظ، دل میں چراغ کی مانند جلتے ہیں جو اندھیروں میں امید کی روشنی دیتے ہیں۔

اقبال کا فلسفہ خودی انسان کو اس کی باطنی طاقت سے روشناس کرواتا ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں بارہا زور دیا کہ انسان اپنی ذات میں ایک عظیم قوت رکھتا ہے، بشرطیکہ وہ اپنی صلاحیتوں کو پہچانے اور عمل کی راہ پر گامزن ہو۔ اقبال نے خودی کے تصور کے ذریعے مسلمانوں کو زوال کے اندھیروں سے نکال کر عزت، عظمت، اور خود اعتمادی کی طرف رہنمائی کی۔

اقبال کی شاعری ایک طرف تو روحانی گہرائی سے بھرپور ہے، جو انسان کو خدا سے جوڑتی ہے، اور دوسری طرف فکری انقلاب کی ایسی آواز ہے جو قوموں کو جھنجھوڑ کر بیدار کرتی ہے۔
1930ء میں الہ آباد کے تاریخی خطبے میں علامہ اقبال نے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کا تصور پیش کیا۔ یہ کوئی سیاسی نعرہ نہیں تھا، بلکہ ایک گہری فکری بصیرت کا نتیجہ تھا جو اسلامی اقدار، تہذیب، اور قومی شناخت کے تحفظ کی ضرورت پر مبنی تھا۔ اقبال نے دیکھا کہ برصغیر کے مسلمانوں کی سیاسی، سماجی، اور روحانی بقا ایک ایسی سرزمین کے بغیر ناممکن ہے جہاں وہ اپنی اقدار کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ ان کا یہ خواب قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں 1947ء میں پاکستان کی صورت میں حقیقت کا روپ دھار گیا۔ اقبال کو اگر پاکستان کا نظریاتی معمار کہا جائے تو یہ کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔

علامہ اقبال نے ہمیشہ نوجوانوں کو قوم کا سب سے قیمتی سرمایہ قرار دیا۔ ان کے نزدیک نوجوان وہ طاقت ہیں جو قوموں کو زوال سے عروج تک لے جا سکتے ہیں۔ ان کا پیغام نوجوانوں کے لیے واضح تھا: علم حاصل کرو، عمل پر یقین رکھو، اور اپنی خودی کو پہچانو۔ آج کے دور میں، جب پاکستان کو سماجی تقسیم، معاشی چیلنجز، اور عالمی دباؤ کا سامنا ہے، اقبال کا پیغام نوجوانوں کے لیے ایک عظیم رہنما ہے۔ انہوں نے کہا تھا
اقبال کا تصور ایک ایسے معاشرے کا تھا جہاں انصاف، محنت، اور اخلاقیات کو فوقیت حاصل ہو۔ وہ ایک ایسی ریاست کے خواہش مند تھے جہاں افراد کی فکری اور روحانی آزادی ہو، جہاں غربت اور جہالت کا خاتمہ ہو، اور جہاں ہر شخص اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکے۔ ان کا یہ خواب آج بھی پاکستان کے لیے ایک عظیم ہدف ہے۔ ہمیں معاشی خود انحصاری، قومی یکجہتی، اور سماجی انصاف کے لیے کام کرنا ہوگا تاکہ اقبال کے اس خواب کو حقیقت کا روپ دیا جا سکے۔

علامہ اقبال کی زندگی اور خدمات ایک ایسی روشنی ہیں جو ہمیں اندھیروں سے نکال کر ترقی اور عزت کی راہ دکھاتی ہیں۔ ان کی شاعری، ان کا فلسفہ، اور ان کا نظریہ آج بھی ہمارے لیے ایک عظیم سرمایہ ہے۔ ہمیں اس ذمہ داری کو قبول کرنا ہوگا کہ ہم اقبال کے خوابوں کو حقیقت بنائیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو بااختیار بنائیں، تعلیم اور تحقیق کو فروغ دیں، اور ایک ایسا معاشرہ تعمیر کریں جو اقبال کے تصورات کی عکاسی کرے۔
اقبال کا پیغام آج بھی زندہ ہے، ان کے الفاظ آج بھی ہمارے دلوں کو گرما رہے ہیں۔ آئیے، ہم عہد کریں کہ ان کے فلسفہ خودی کو اپناتے ہوئے پاکستان کو ایک ایسی قوت بنائیں جو دنیا میں سرخرو ہو۔ اقبال کا خواب ہمارا مشن ہے، اور اس مشن کی تکمیل ہماری ذمہ داری۔

دنیا میں ہماری موجودگی عارضی ہے، نہ یہاں ٹھہرنا ہمارا نصیب ہے، نہ ہی کسی چیز پر ہمارا اختیار۔ ہم لمحہ بھر کے مہمان ہیں، نہ جانے کب وقت ہمیں اچانک اٹھا کر لے جائے۔ یہی سوچ انسان کو عاجزی، فانی دنیا سے بےرغبت اور حقیقی مقصد کی طرف متوجہ کرتی ہے

متعلقہ خبریں

مقبول ترین