پاکستان سالانہ 2 بلین ڈالر کیسے بچا سکتا ہے؟

یہ وہی ملک ہے جسے اللہ نے زراعت کے لیے بے پناہ نعمتوں سے نوازا

تحریر: غلام مرتضی

ہالینڈ جیسے ممالک نے زرعی ڈیجیٹلائزیشن کے ذریعے اپنی پیداوار کو کئی گنا بڑھایا ہے۔ وہاں کسان سمارٹ فون ایپس کے ذریعے مٹی کی زرخیزی، موسم کی پیشگوئی، اور پانی کے استعمال کی نگرانی کرتے ہیں

جب ہم پاکستان کے سرسبز کھیتوں، محنتی کسانوں، اور زرخیز زمینوں کی بات کرتے ہیں، تو دل میں ایک فخر کی لہر اٹھتی ہے۔ یہ وہی ملک ہے جسے اللہ نے زراعت کے لیے بے پناہ نعمتوں سے نوازا پانی کے دریا، موسم کی تنوع، اور کسانوں کی محنت۔ ایک زمانے میں ہم گندم اور کپاس میں خود کفیل تھے، لیکن آج ہم گندم کی پیداوار میں پیچھے ہیں اور کپاس درآمدی فہرست میں شامل ہے۔ 65 فیصد آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے، لیکن کیا ہم نے ان کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے کچھ کیا؟

پاکستان اکنامک سروے 2023-24 کے مطابق پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی زراعت ہے، جو جی ڈی پی کا تقریباً 24 فیصد حصہ فراہم کرتی ہے اور 38 فیصد سے زائد افرادی قوت کو روزگار دیتی ہے۔فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن، 2023 کی رپورٹ کے مطابق فی ایکڑ پیداوار کے لحاظ سے ہم ترقی یافتہ ممالک سے بہت پیچھے ہیں۔ پاکستان میں گندم کی فی ایکڑ پیداوار اوسطاً 30 من ہے، جبکہ چین اور بھارت میں یہ 50 سے 60 من تک ہے ۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان، 2024کی رپورٹ کے مطابق کپاس کی پیداوار بھی 1990 کی دہائی کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم ہوئی ہے، اور اب ہم سالانہ 1.5 بلین ڈالر سے زائد مالیت کی کپاس درآمد کر رہے ہیں۔

اس زوال کی بنیادی وجوہات میں پانی کا غیر مؤثر استعمال، ناقص بیج، زمین کی غیر معیاری تیاری، اور کھادوں کا غیر سائنسی استعمال شامل ہیں۔ واٹر ایڈ کے ایک مطالعے کے مطابق، پاکستان اپنے 90 فیصد پانی کو زراعت میں استعمال کرتا ہے، لیکن اس کا 50 فیصد سے زائد حصہ ناقص ایریگیشن سسٹم کی وجہ سے ضائع ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، زرعی تحقیق پر سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔ پاکستان ایگریکلچرل ریسرچ کونسل (PARC) کے بجٹ کا بڑا حصہ تنخواہوں پر خرچ ہوتا ہے، جبکہ جدید بیجوں اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے لیے فنڈز محدود ہیں۔

پاکستان کی 65 فیصد آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے، جن میں سے زیادہ تر کا انحصار زراعت پر ہے۔ لیکن ان علاقوں میں نہ تو جدید تعلیم تک رسائی ہے اور نہ ہی نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع۔ ورلڈ بینک کی 2023 کی رپورٹ کے مطابق، دیہی علاقوں میں 60 فیصد سے زائد نوجوان غیر ہنر مند ہیں، اور زرعی تربیت کے پروگرامز نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اگر ہم ان نوجوانوں کو زرعی ڈیجیٹلائزیشن، ویلیو ایڈیشن، اور ایگری ٹیک میں تربیت دیں، تو وہ نہ صرف اپنی زندگی بہتر بنا سکتے ہیں بلکہ ملک کی معیشت کو بھی مضبوط کر سکتے ہیں۔

مثال کے طور پر، ہالینڈ جیسے ممالک نے زرعی ڈیجیٹلائزیشن کے ذریعے اپنی پیداوار کو کئی گنا بڑھایا ہے۔ وہاں کسان سمارٹ فون ایپس کے ذریعے مٹی کی زرخیزی، موسم کی پیشگوئی، اور پانی کے استعمال کی نگرانی کرتے ہیں۔ پاکستان میں بھی ایسی ٹیکنالوجی کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ حال ہی میں پنجاب حکومت نے ’’کسان کارڈ‘‘ پروگرام شروع کیا، جس کے تحت کسانوں کو سبسڈی پر بیج اور کھاد ملتی ہے، لیکن اس کی رسائی ابھی محدود ہے۔

پاکستان میں زرعی مشینری کی گھریلو صنعت کی صلاحیت بے پناہ ہے، لیکن اسے منظم سرپرستی کی کمی کا سامنا ہے۔ 1980 کی دہائی میں ’’ڈیلیشن پروگرام‘‘ کے تحت مقامی سطح پر کمبائن ہارویسٹرز بنانے کی کوشش کی گئی، لیکن یہ پروگرام وسائل اور منصوبہ بندی کی کمی کی وجہ سے ناکام ہوا۔ آج بھی چھوٹے کاشتکار مہنگی درآمد شدہ مشینری پر انحصار کرتے ہیں، جبکہ مقامی اداروں جیسے ملّت ٹریکٹرز لمیٹڈ نے محدود وسائل کے باوجود کچھ پیش رفت کی ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق، اگر پاکستان اپنی زرعی مشینری کی صنعت کو فروغ دے تو سالانہ 2 بلین ڈالر کی درآمدات بچائی جا سکتی ہیں۔

چھوٹے کاشتکاروں کے لیے سروسز کمپنیاں بنانے کی ضرورت ہے جو کرائے پر مشینری فراہم کریں۔ بھارت کی ’’مہندرا اینڈ مہندرا‘‘ کمپنی اس کی ایک کامیاب مثال ہے، جو کسانوں کو سستی مشینری اور سروسز فراہم کرتی ہے۔ پاکستان میں ایسی کمپنیوں کو سرکاری سرپرستی اور آسان قرضوں کی ضرورت ہے تاکہ چھوٹے کسان جدید زراعت سے استفادہ کر سکیں۔
پاکستان میں آف سیزن اجناس کی سٹوریج کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں۔ فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (FAO) کے مطابق، پاکستان میں 20 سے 30 فیصد زرعی پیداوار ناقص سٹوریج کی وجہ سے ضائع ہو جاتی ہے۔

اگر دیہی علاقوں میں چھوٹے کولڈ اسٹوریج پلانٹس لگائے جائیں، تو نہ صرف یہ نقصان کم ہوگا بلکہ کسان اپنی پیداوار کو بہتر قیمت پر فروخت کر سکیں گے۔ اس کے علاوہ، ویلیو ایڈیشن کے لیے چھوٹے پروسیسنگ پلانٹس کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر، ٹماٹر سے کیچپ، آم سے جوس، اور گنے سے ایتھنول بنانے کے پلانٹس دیہی علاقوں میں روزگار کے مواقع پیدا کر سکتے ہیں۔

بنگلہ دیش نے اس شعبے میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔ وہاں چھوٹے پروسیسنگ یونٹس نے نہ صرف زرعی پیداوار کی قدر بڑھائی بلکہ دیہی خواتین کے لیے روزگار کے مواقع بھی پیدا کیے۔ پاکستان میں بھی ایسی پالیسیوں کی ضرورت ہے جو چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں (SMEs) کو فروغ دیں۔
زراعت میں ڈیجیٹلائزیشن اور مصنوعی ذہانت (AI) کے استعمال سے پیداوار میں انقلاب لایا جا سکتا ہے۔ دیہی علاقوں میں سمارٹ فون اور انٹرنیٹ کی دستیابی بہتر کی جائے، کسانوں کا مرکزی ڈیٹابیس بنایا جائے، اور زرعی ان پٹس کی ترسیل کے لیے بلاک چین اور کیو آر کوڈ سسٹمز متعارف کرائے جائیں۔ کینیا کی ’’ایم-پیسا‘‘ ایپ اس کی ایک کامیاب مثال ہے، جو کسانوں کو ڈیجیٹل ادائیگیوں اور قرضوں تک رسائی دیتی ہے۔ پاکستان میں ایسی ٹیکنالوجی نہ صرف زرعی پیداوار بڑھا سکتی ہے بلکہ کسانوں کی مالی خودمختاری کو بھی فروغ دے سکتی ہے۔

زرعی تحقیق پر سرمایہ کاری کی کمی پاکستان کی زراعت کی ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ اجلاس میں مٹی کی زرخیزی، غذائیت سے بھرپور پیداوار، اور کسانوں کی تربیت پر زور دیا گیا۔ بھارت کی انڈین کونسل آف ایگریکلچرل ریسرچ (ICAR) نے جدید بیجوں اور ٹیکنالوجی کے ذریعے گندم اور چاول کی پیداوار کو دگنا کیا ہے۔ پاکستان کو بھی اپنی زرعی یونیورسٹیوں اور تحقیقاتی اداروں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ نجی و سرکاری شراکت داری سے تربیتی پروگرامز شروع کیے جائیں، جن میں کسانوں کو جدید تکنیک سکھائی جائیں۔

موجودہ منڈیوں کی حالت زار کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ کسان اپنی پیداوار کو مناسب قیمت پر فروخت نہیں کر پاتے کیونکہ منڈیاں منظم نہیں ہیں۔ اجلاس میں نئی مارکیٹ انفراسٹرکچر کی تعمیر اور جدید زرعی آلات کی دستیابی پر زور دیا گیا۔ اس کے علاوہ، زرعی قرضوں کی آسان فراہمی اور مالیاتی اداروں کے کردار کو فعال بنانے کی ضرورت ہے۔ زرعی ترقیاتی بینک آف پاکستان (ZTBL) نے کسانوں کو قرضے دینے کی کوشش کی ہے، لیکن اس کی رسائی محدود ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق، اگر زرعی مالیات تک رسائی بہتر کی جائے تو پاکستان کی زرعی پیداوار میں 20 فیصد اضافہ ممکن ہے۔
زراعت کی ترقی کے لیے شفاف ریگولیٹری ڈھانچہ اور پالیسی سازی میں کسانوں کی شمولیت ضروری ہے۔ فی الحال، زرعی پالیسیاں زیادہ تر بیوروکریٹس بناتے ہیں، جنہیں زمینی حقائق کا علم نہیں ہوتا۔ اجلاس میں تجویز کیا گیا کہ ماہرین، کسانوں، اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو پالیسی سازی میں شامل کیا جائے۔ چین کی زرعی پالیسیاں اس کی ایک کامیاب مثال ہیں، جہاں کسانوں کی رائے کو مرکزی حیثیت دی جاتی ہے۔

پاکستان کی زراعت کو درپیش سب سے بڑا چیلنج پانی کا غیر مؤثر استعمال ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق، پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں پانی کی قلت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ڈرپ ایریگیشن اور واٹر ہارویسٹنگ جیسے طریقوں کو اپنانے سے پانی کا ضیاع کم کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، ناقص بیجوں کی جگہ ہائی بریڈ بیج متعارف کیے جائیں، اور کھادوں کے استعمال کے لیے کسانوں کو تربیت دی جائے۔

ڈیجیٹل زراعت: سمارٹ فون ایپس اور AI کے ذریعے کسانوں کو موسم، مٹی، اور پانی کی معلومات فراہم کی جائیں۔
سٹوریج اور ویلیو ایڈیشن: دیہی علاقوں میں کولڈ اسٹوریج اور پروسیسنگ پلانٹس لگائے جائیں۔
زرعی مشینری: مقامی صنعت کو فروغ دینے کے لیے سبسڈی اور آسان قرضے دیے جائیں۔
تحقیق و ترقی: زرعی یونیورسٹیوں اور تحقیقاتی اداروں کے بجٹ میں اضافہ کیا جائے۔

مالیاتی رسائی: زرعی قرضوں کی شرائط کو آسان کیا جائے اور دیہی علاقوں میں مالیاتی اداروں کی رسائی بڑھائی جائے۔
پاکستان کی زرخیز زمینیں ہمارا سب سے بڑا اثاثہ ہیں، لیکن انہیں ضائع ہونے سے بچانے کے لیے ہمیں فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ ہمارے کسان، ہماری زمین، اور ہمارے وسائل ہمیں دنیا کی بڑی زرعی طاقتوں میں شامل کر سکتے ہیں، لیکن اس کے لیے ہمیں اپنی ترجیحات کو درست کرنا ہوگا۔ زرعی ڈیجیٹلائزیشن، ویلیو ایڈیشن، اور تحقیق و ترقی وہ ستون ہیں جو ہماری زراعت کو نئی بلندیوں تک لے جا سکتے ہیں۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنے کسانوں کو وہ مقام دیں جو وہ سچے معنوں میں مستحق ہیں۔ آئیے، اس زرخیز موسم کو خوابوں کا موسم بنائیں—ایک ایسا موسم جو نہ صرف ہمارے کھیتوں کو سرسبز کرے بلکہ ہماری قوم کی تقدیر کو بھی روشن کرے!

متعلقہ خبریں

مقبول ترین