دنیا میں اقوام صرف ہتھیاروں یا معیشت سے نہیں جیتتیں، وہ بیانیے سے جیتتی ہیں۔ آج اگر بھارت دنیا بھر میں اپنے توسیع پسند عزائم، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور اقلیت دشمن پالیسیوں کے باوجود ایک "جمہوری” اور "لبرل” چہرے کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے، تو اس کی بڑی وجہ اس کا عالمی سطح پر مضبوط، منظم اور مستقل بیانیہ ہے۔ دوسری طرف پاکستان، جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں جانوں کی قربانی دے چکا ہے، عالمی سطح پر آج بھی شک اور تعصب کا شکار ہے۔ اس صورتِ حال کا کڑوا لیکن حقیقت پسندانہ تجزیہ خرم نواز گنڈاپور (سیکرٹری جنرل پاکستان عوامی تحریک) نے حال ہی میں ایک نجی ٹی وی چینل پر گفتگو میں کیا، جسے سن کر ہر باشعور پاکستانی کو سوچنے پر مجبور ہونا چاہیے۔
خرم نواز گنڈاپور نے اپنی گفتگو میں اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ مغربی دنیا میں بھارت کے لیے ایک واضح سافٹ کارنر موجود ہے۔ مغرب میں "اسلاموفوبیا” ایک منظم بیانیے کے طور پر کئی دہائیوں سے پروان چڑھایا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں مسلمانوں اور مسلم ریاستوں کے خلاف ایک عمومی بدگمانی پنپ چکی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے خود مغرب میں 10 سے 12 سال گزارے ہیں اور وہاں اس بیانیے کی گہرائی کو ذاتی طور پر محسوس کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت، جس کی حکومت آج واضح طور پر انتہا پسند ہندو قوم پرستی کے نظریے پر کاربند ہے، مغرب کے نزدیک اب بھی ایک معتدل، ترقی پسند اور جمہوری ملک سمجھا جاتا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان، جس نے دہشت گردی کے خلاف سب سے بڑی جنگ لڑی، آج بھی عالمی میڈیا میں شک و شبہات کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔
اس کی بڑی وجہ خرم نواز گنڈاپور کے مطابق ہماری سفارتی اور بیانیاتی ناکامی ہے۔ بھارت نے نہ صرف اپنی فلم انڈسٹری، میڈیا اور سفارت کاری کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا بلکہ مغربی ممالک کو اپنی معاشی اور تزویراتی اہمیت کا قائل بھی کیا۔ خاص طور پر امریکہ، جو بھارت کو چین کے خلاف ایک اسٹریٹجک حلیف سمجھتا ہے، اسے نرم گوشہ فراہم کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کے جنگی جرائم، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، مقبوضہ کشمیر کی صورتحال، اور اقلیتوں کے خلاف اقدامات عالمی سطح پر نظر انداز کیے جاتے ہیں۔
خرم نواز گنڈاپور نے کہا کہ جب کوئی ملک ایٹمی قوت بن جاتا ہے، تو دنیا کا رویہ خود بخود تبدیل ہو جاتا ہے۔ شمالی کوریا کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ لیکن پاکستان کے ساتھ ایسا کیوں نہیں ہوا؟ اس کی وجہ ہماری سفارتی ناکامی ہے۔ ہم نے اپنی ایٹمی طاقت، قربانیوں اور سچائی کو عالمی سطح پر اس طرح پیش ہی نہیں کیا جیسا کہ اسے پیش کرنا چاہیے تھا۔
انہوں نے حالیہ بھارتی حملوں پر بھی بات کی اور کہا کہ بھارت جن اہداف کو نشانہ بنا رہا ہے وہ درحقیقت سویلین مقامات اسکول، مساجد، اسپتال ہیں۔ لیکن بھارت انہیں دہشت گردوں کے اڈے قرار دے رہا ہے اور دنیا اس پر یقین کر رہی ہے کیونکہ ہمارے پاس نہ کوئی مؤثر بیانیہ ہے، نہ کوئی فعال سفارت کاری۔ انہوں نے حکومت کو تجویز دی کہ غیر ملکی صحافیوں کو ان علاقوں میں لے جایا جائے اور انہیں حقائق دکھائے جائیں تاکہ دنیا کو علم ہو کہ بھارت نہ صرف جنگی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے بلکہ بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی بھی کر رہا ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت سیاسی اختلافات کو پس پشت ڈال کر تمام جماعتوں کو اعتماد میں لے، اور ایک مشترکہ قومی وفد تشکیل دے جو دنیا بھر کے دارالحکومتوں میں جا کر پاکستان کا سچ پیش کرے۔ قوم دل سے پہلے ہی متحد ہے، صرف ضرورت اس بات کی ہے کہ اس اتحاد کو عملی شکل دی جائے۔
بلوچستان کے تناظر میں انہوں نے بھارتی مداخلت پر روشنی ڈالی اور کلبھوشن یادیو کا حوالہ دیا، جس کی موجودگی ہمارے پاس ایک ٹھوس ثبوت ہے۔ اس کے باوجود ہم اسے عالمی سطح پر مؤثر انداز میں اجاگر نہیں کر سکے۔ حالیہ دنوں میں ایک اور بھارتی جاسوس کی گرفتاری بھی ہمارے لیے ایک موقع ہے جسے ہم میڈیا اور سفارت کاری کے ذریعے دنیا کے سامنے لا سکتے ہیں۔
انہوں نے تجویز دی کہ پاکستان اقوامِ متحدہ سے باضابطہ مطالبہ کرے کہ بھارت میں ایک غیرجانبدار "فیکٹ فائنڈنگ مشن” بھیجا جائے جو ان الزامات کی حقیقت معلوم کرے۔ اگر بھارت واقعی پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات لگا رہا ہے تو اسے ثبوت دینا ہوں گے۔
حکومتی بیانیے پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزراء کے بیانات میں تضاد ہے۔ کوئی وزیر کہتا ہے حملہ آج رات ہوگا، دوسرا کہتا ہے تین دن بعد، تیسرا کہتا ہے کچھ بھی نہیں ہوگا۔ یہ غیر سنجیدگی نہ صرف قوم میں اضطراب پیدا کر رہی ہے بلکہ دشمن کو ہمارے انتشار کا پیغام دے رہی ہے۔
خرم نواز گنڈاپور نے ایک اور اہم نکتہ اٹھایا کہ بھارت ہندوتوا نظریے کے تحت پورے خطے پر غلبے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ بنگلہ دیش سے افغانستان تک اس کے تابع حکومتیں ہوں۔ اس کے اس جنون کا واحد مؤثر جواب یہی ہے کہ پاکستان عسکری، سفارتی، سیاسی اور صحافتی محاذوں پر متحرک ہو، اور دنیا کو دکھا دے کہ ہم نہ صرف ایک ایٹمی طاقت ہیں، بلکہ زندہ، باوقار اور غیرت مند قوم بھی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دشمن ہماری خاموشی کو کمزوری اور ہمارے استدلال کو بے بسی سمجھتا ہے۔ لیکن ہمیں بتانا ہوگا کہ ہم کمزور نہیں، بلکہ ذمہ دار ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ اقوام متحدہ، او آئی سی، سیکیورٹی کونسل اور دیگر عالمی اداروں میں پاکستان اپنے بیانیے کو شدت سے اور دلیل سے اٹھائے۔ خاص طور پر او آئی سی سے کھل کر سوال کیا جائے کہ وہ کب تک خاموش رہے گی؟ اگر آج پاکستان کے ساتھ کھڑے نہ ہوئے تو کل انہیں بھی تنہا ہونا پڑے گا۔
آخر میں انہوں نے کہا کہ افواجِ پاکستان اپنی ذمہ داری بھرپور انداز میں ادا کر رہی ہیں۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ قوم، میڈیا، حکومت، اپوزیشن، سب ایک ہو جائیں۔ یہ وقت نیشنل ایکشن کا ہے — نیشنل کنفیوژن کا نہیں۔ اگر ہم نے آج دانش مندی، اتحاد، اور مؤثر بیانیے کے ساتھ دشمن کا سامنا کیا تو آنے والی نسلیں ہمیں سلام کریں گی۔ ورنہ تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔
بیانیے کی جنگ کا وقت
مغربی دنیا میں بھارت کے لیے ایک واضح سافٹ کارنر موجود ہے