ربا (سود ) کے بارے میں شرعی احکام اور ہماری ذمہ داری

اسلامی تعلیمات میں سود کو کھلے الفاظ میں حرام قرار دیا گیا ہے کیونکہ یہ معاشرتی استحصال اور بے انصافی کا سرچشمہ ہے

تحریر :پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری (ماہر معاشیات)

ربا کے لغوی معنی کسی مخصوص شے میں اضافہ ،پھیلائو ،ترقی اور بڑھوتری ہیں ۔ اردو میں ربا کو سود کہتے ہیں ۔ربا کی اصطلاح کاروبار اور تجارت میں بے انصافی ،اور استحصال سے فوائد حاصل کرنے کے معنوں میں استعمال کی جاتی ہے ۔

سود (ربا) اسلامی معیشت کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے، جو نہ صرف فرد کی روحانیت کو مجروح کرتا ہے بلکہ معاشرتی عدل، اخلاقی توازن اور معاشی استحکام کو بھی تباہ کر دیتا ہے۔ اسلامی تعلیمات میں سود کو کھلے الفاظ میں حرام قرار دیا گیا ہے کیونکہ یہ معاشرتی استحصال اور بے انصافی کا سرچشمہ ہے۔ قرآن مجید سودی نظام کو اس قدر سنگین جرم قرار دیتا ہے کہ اس میں ملوث افراد کے بارے میں اعلانِ جنگ کیا گیا ہے: "اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو اگر تم مومن ہو۔ اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلانِ جنگ سن لو” (البقرہ: 278-279)۔

یہ اعلان اس بات کی دلیل ہے کہ سود کے ذریعے مالی لین دین کو نفع کا ذریعہ بنانا، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے خلاف بغاوت ہے۔

سود کی فطرت دراصل ظلم پر مبنی ہے۔ یہ لین دین کا ایسا طریقہ ہے جو ایک فریق کو بغیر کسی محنت کے نفع دیتا ہے، جب کہ دوسرا فریق نقصان، مجبوری یا دباؤ میں مبتلا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے سود لینے، دینے، لکھنے اور اس پر گواہی دینے والوں سب پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ یہ سب گناہ میں برابر کے شریک ہیں۔ یہ حدیث ایک مکمل مالی نظام پر کاری ضرب ہے، جو آج کے دور میں مالیاتی اداروں اور بینکوں کی شکل میں موجود ہے۔

اسلامی مالیاتی اصول سود سے مکمل طور پر پاک ہیں۔ اسلامی نظام معیشت رسک، محنت اور شراکت داری پر مبنی ہے، جہاں ہر فریق کے نفع اور نقصان میں شرکت ہوتی ہے۔ یہی وہ اصول ہے جو عدل پر قائم ہوتا ہے اور معیشت کو ظلم سے محفوظ رکھتا ہے۔ سود کے برعکس، اسلامی معاہدات جیسے مضاربہ، مشارکہ، مرابحہ اور اجارہ میں فریقین کی رضامندی، شفافیت اور اخلاقی ذمہ داری شامل ہوتی ہے جو فلاحی معیشت کی بنیاد ہے۔

سود صرف مالی معاملہ نہیں، بلکہ یہ اخلاقی انحطاط اور روحانی فساد کا سبب بھی ہے۔ قرآن مجید میں سود کھانے والوں کے بارے میں فرمایا گیا کہ وہ قیامت کے دن اس شخص کی طرح اٹھیں گے جسے شیطان نے چھو کر دیوانہ بنا دیا ہو (البقرہ: 275)۔ یہ منظر بیان کرتا ہے کہ دنیا میں مالی فائدے کے حصول کے لیے جو شخص ظلم کی بنیاد پر معاملات کرتا ہے آخرت میں اسے شدید ذلت اور عذاب کا سامنا ہوگا۔

معاشرتی سطح پر سود نے سرمایہ چند ہاتھوں میں مرکوز کر دیا ہے۔ غریب قومیں اور افراد ان بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے شکنجے میں پھنس چکی ہیں جو سودی قرضوں کے ذریعے انہیں معاشی غلامی میں مبتلا رکھتے ہیں۔ اسلامی معیشت اس کے برعکس، دولت کی گردش، زکوٰۃ، صدقات اور باہمی تعاون پر زور دیتی ہے تاکہ وسائل کا توازن قائم رہے اور محروم طبقات کو سہارا دیا جا سکے۔سود کے جواز کے لیے بعض لوگ دلیل دیتے ہیں کہ مہنگائی اور افراطِ زر کی بنا پر رقم کی قدر گھٹ جاتی ہے، لہٰذا نفع جائز ہے۔ لیکن یہ دلیل نہ شریعت کے مطابق ہے اور نہ اخلاقی بنیاد پر۔ شریعت وہ اصولی ضابطہ فراہم کرتی ہے جو نفع کو محنت، شراکت اور جائز تجارت کے ذریعے حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے، نہ کہ کسی کی مجبوری یا ضرورت سے فائدہ اٹھانے کے ذریعے۔

اسلام کا مالیاتی نظام ایک ایسا متبادل ہے جو صرف انفرادی یا مذہبی ضرورت نہیں بلکہ عالمی سطح پر انسانی فلاح کا ضامن بن سکتا ہے۔ یہ نظام معاشرتی ہم آہنگی، دیانت، اعتماد، اور باہمی احترام کو فروغ دیتا ہے۔ اگر دنیا کو مالی بحرانوں، طبقاتی خلیج اور اخلاقی انحطاط سے بچانا ہے تو سود سے پاک، اسلامی معیشت کو اپنانا ناگزیر ہے۔اسی لیے ضروری ہے کہ معاشرے کے تمام طبقات، خصوصاً تاجر، سرمایہ دار اور پالیسی ساز، اسلامی مالیاتی اصولوں کو اپنائیں اور سودی نظام سے مکمل نجات حاصل کریں۔ ساتھ ہی تعلیمی اداروں، میڈیا اور مذہبی پلیٹ فارمز کے ذریعے عوام کو سود کے نقصانات اور اسلامی اصولوں کے فوائد سے آگاہ کیا جائے، تاکہ ایک ایسامعاشی ڈھانچہ تشکیل پائے جو عدل، امن، دیانت اور فلاح پر مبنی ہو اور دنیا و آخرت دونوں میں کامیابی کا ذریعہ بنے۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین