خصوصی تحریر: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری
قربانی کا لفظ اپنے معنوی اطلاقات کے اعتبار سے وسیع مفہوم کا حامل ہے۔ قربانی کا لفظ ’’قرب‘‘ سے نکلا ہے۔ قرب کسی چیز کے نزدیک ہونے کو کہتے ہیں، لہٰذا قربانی سے مراد ایسا عمل ہے جس سے اللہ تعالیٰ کا قرب نصیب ہو۔ اصطلاحاً ’’قربانی‘‘ کا لفظ عیدالاضحی کے ذبیحہ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ اس دن قربِ الٰہی حاصل کرنے کے لیے جانور ذبح کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ قربانی سے مراد اپنی جان، مال، اولاد، عزت و آبرو، راحت و آرام سمیت ہر چیز کو اﷲ کی رضا کے لیے قربان کر دینا ہے۔ سورئہ انعام کی آیت نمبر ۱۶۲ میں ہے:
’’بے شک میری نماز اور میرا حج اور قربانی (سمیت سب بندگی) اور میری زندگی اور میری موت اﷲ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔‘‘
قربانی کا تاریخی پس منظر
کسی حلال جانور کو قرب الٰہی کے حصول کی نیت سے ذبح کرنے کا سلسلہ اس وقت سے شروع ہے جب سے حضرت آدم ں اس دنیا میں تشریف لائے۔ سب سے پہلے قرآن حکیم میں حضرت آدم ں کے دو بیٹوں ہابیل و قابیل کی طرف سے دی گئی قربانی کا ذکر کیا گیا۔ قربانی کی ابتداء تو حضرت آدم ں کے بیٹوں نے کی لیکن اس کو دائمی شہرت حضرت ابراہیم ں اور حضرت اسماعیل ں کے واقعہ سے ملی۔ یہ قربانی ذبح عظیم کی آئینہ دار تھی۔ حضرت ابراہیم ں اور حضرت اسماعیل ں کی یاد کو قیامت تک زندہ رکھنے کے لیے ہر سال دس ذی الحج کو قربانی کا فریضہ ادا کیا جاتا رہے گا۔
مقاصدِ قربانی
قربانی محض ایک رسم کے طور پر جانور ذبح کرنا ہی نہیں بلکہ اس کے ذریعے درج ذیل مقاصد کا حصول مطلوب ہے:
.1 قربانی ہی وہ سنت ابراہیمی ہے جسے اُمتِ محمدیہ میں ایک زندہ جاوید یاد کے طور پر دوام عطا کر دیا گیا ہے اور امت مسلمہ کو ہدایت کی گئی کہ وہ اس کی روح کو تازہ کر تے ہوئے اس کا عملی مظاہرہ کرتی رہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’اور ہم نے ہر امت کے لیے ایک قربانی مقرر کر دی ہے۔‘‘ (الحج، ۲۲: ۳۴)
اللہ تعالیٰ نے سنتِ ابراہیمی کی تقلید کو عبادت کا درجہ دے دیا۔ حضرت زید بن ارقم ص روایت کرتے ہیں کہ صحابہ کرام ث نے عرض کیا: ’’یا رسول اللہ! یہ قربانی کیا شے ہے؟ آپ ا نے فرمایا: یہ تمہارے باپ ابراہیم ں کی سنت ہے۔ صحابہ کرام ث نے عرض کیا: اس قربانی سے ہمیں کیا ثواب ملے گا؟ آپ ا نے فرمایا: (قربانی کے جانور کے) ہر بال کے عوض ایک نیکی۔ صحابہ کرام ث نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! اگر مینڈھا ہو تو؟ آپ ا نے فرمایا: ’’تب بھی ہر بال کے عوض ایک نیکی ملے گی۔‘‘ (سنن ابن ماجہ)
حضرت ابوہریرہ ص روایت کرتے ہیں: ’’حضور نبی اکرم ا قربانی کاارادہ کرتے تو دو مینڈھے خریدتے جو موٹے تازے سینگوں والے کالے اور سیاہ رنگ دار ہوتے ایک اپنی امت کے ہر فرد کی جانب سے ذبح کرتے جو بھی اللہ کو ایک مانتا ہو اور رسول ا کی رسالت کا قائل ہو، اور دوسرا اپنی اور اپنی آل کی جانب سے ذبح فرماتے۔‘‘ (سنن ابن ماجہ)
حضرت حنش ص روایت کرتے ہیں: ’’میں نے حضرت علی ص کو دو دُنبے ذبح کرتے دیکھا تو عرض گزار ہوا کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ا نے مجھے اپنی طرف سے قربانی کرنے کی وصیت فرمائی تھی، چنانچہ (ارشادِ عالی کے تحت) ایک قربانی میں حضور نبی اکرم ا کی طرف سے پیش کر رہا ہوں۔‘‘ (سنن ابی داؤد)
یہ بات سنت سے ثابت ہے کہ حضور نبی اکرم انے خود اپنے لیے بھی قربانی کی، اپنے اہل بیت اور قیامت تک آنے والی اپنی امت کی طرف سے بھی قربانی کی۔ یہ عمل آپ ا کو سیدنا ابراہیم ں کی سنت کے اِحیاء اور یادگار کے طور پر اللہ رب العزت کی طرف سے عطا ہوا تھا۔ اس لیے آپ انے حضرت علی ص کو وصیت فرمائی تھی کہ میرے بعد میری طرف سے اور اپنی طرف سے قربانی دینا۔ اِس پر امیر المومنین سیدنا علی ص ہمیشہ عمل پیرا رہے۔
سنتِ ابراہیمی کی تقلید کرنے سے نہ صرف اُن کے اعمال کی یاد زندہ رہتی ہے بلکہ نیک عمل کا جذبہ بھی بیدار ہوتا ہے۔ سنت ابراہیمی ں امت مسلمہ کو یاد دلاتی ہے کہ جس طرح وہ آج حضرت اسماعیل ں کی قربانی کی یادگار سنت کو جاری رکھے ہوئے ہے اس طرح اس خون کو گواہ بنا کریہ وعدہ کریں کہ دین کی سربلندی کے لیے جان کی قربانی کا نذرانہ پیش کرنا پڑے تب بھی وہ اس سے دریغ نہیں کرے گی۔ اس کے برعکس اگر قربانی کے اندر یہ روح کار فرما نہ ہو تو ایسی قربانی مردہ رسم کے سوا کچھ نہیں۔
.2 قربانی کا مقصد مسلمانوں میں ایثار و قربانی کا جذبہ پیدا کرنا ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے سنت ابراہیمی کو قیامت تک کے مسلمانوں کے لیے واجب قرار دیا۔ یہ عبادت بلااختلاف اُمتِ محمدیہ میں سیدنا ابراہیم ں اور حضورا کی سنت کے طور پر رائج ہے۔ جامع ترمذی میں منقول حدیث مبارکہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے یوں مروی ہے:
’’حضور نبی اکرم ا مدینہ طیبہ میں دس سال قیام پذیر رہے اور آپ ا قربانی دیتے رہے۔‘‘
قربانی کا اصل مدعا مسلمانوں کے اندر جذبۂ ایثار اجاگر کرنا ہے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی ہر عزیز شے قربان کرنے کے لیے مستعد رہیں۔
.3 ہر عمل انسانی شخصیت، نفس اور قلب و باطن پر خاص اثرات مرتب کرتا ہے لیکن کچھ اعمال ایسے ہوتے ہیں جن سے خاص اللہ تعالیٰ کا قرب نصیب ہوتا ہے۔ قربانی بھی ایسے ہی اعمال میں سے ہے لیکن وہی قربانی اللہ رب العزت کی بارگاہ میں مقبول ہوتی ہے جس کا مقصد رضائے الٰہی کا حصول ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ہرگز نہ (تو) اﷲ کو ان (قربانیوں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون مگر اسے تمہاری طرف سے تقویٰ پہنچتا ہے۔‘‘ (الحج، ۲۲: ۳۷)
اسی بنا پر اللہ کی رضا کے لیے کی جانے والی قربانی کے خون کا قطرہ ابھی زمین پر نہیں گرتا کہ وہ اللہ کی بارگاہ میں شرف قبولیت پا لیتا ہے اوربندے کو بارگاہ الٰہی میں قبولیت کی وہ شان عطا کرتا ہے جس کا ذکر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کی اس روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم انے فرمایا:
’’قربانی کے دن اللہ کو خون بہانے سے زیادہ بندے کا کوئی عمل محبوب نہیں اور وہ جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں اور کُھروں سمیت آئے گا۔ وہ خون زمین پر گرنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک بلند درجہ حاصل کر لیتا ہے تو تمہیں اپنی قربانی سے مسرور ہونا چاہیے۔‘‘ (جامع ترمذی)
قربانی کی قبولیت میں جو چیز بنیادی اہمیت کی حامل ہے وہ اللہ کی بارگاہ میں حسنِ نیت اور صدق و اخلاص ہے۔ عمل اگر صدق و اخلاص کی بنا پر کیا جائے تو چاہے قلیل تر ہی کیوں نہ ہو انسان کا درجہ بلند تر کر دیتا ہے جبکہ وہی عمل اگر صدق و اخلاص، نیک نیتی اور للّٰہیت سے خالی ہو تو خواہ وہ پہاڑوں کی طرح کیوں نہ ہو خدا کی بارگاہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ اگر قربانی میں نیت یہ ہو کہ بہت بڑے اور کثرت سے جانور خرید کر ان کی نمود و نمائش کریں تاکہ لوگ متاثر ہوں اور وہ یہ کہیں کہ بہت بڑا آدمی ہے۔ لوگوں کی نظروں کو تو دھوکہ دیا جا سکتا ہے لیکن خدا کے ہاں ایسا آدمی بڑا نہیں ہوتا۔ عین ممکن ہے کہ خدا کے ہاں پچھلی صف پر بیٹھا ہوا وہ آدمی بڑا ہو جس میں قربانی کرنے کی سکت بھی نہ ہو لیکن اس کا دل چاہ رہا ہو کہ میرے پاس دولت ہوتی تو میں خدا کی رضا کے لیے قربانی کرتا۔ ممکن ہے قربانی نہ کر کے بھی اُس غریب کو اللہ کی بارگاہ میں وہ اَجر مل جائے جو ریاکاری کی قربانی کرنے والے کو کبھی میسر نہ ہو سکے۔ لہٰذا قربانی کا قبول ہونا اس پر موقوف ہے کہ قربانی کس نیت سے دی جا رہی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اور جو شخص اﷲ کی نشانیوں کی تعظیم کرتا ہے (یعنی ان جانداروں، یادگاروں، مقامات،احکام اور مناسک وغیرہ کی تعظیم جو اﷲ یا اﷲ والوں کے ساتھ کسی اچھی نسبت یا تعلق کی وجہ سے جانے پہچانے جاتے ہیں) تو یہ (تعظیم) دلوں کے تقویٰ میں سے ہے (یہ تعظیم وہی لوگ بجا لاتے ہیں جن کے دلوں کو تقویٰ نصیب ہو گیا ہو)۔‘‘ (الحج، ۲۲: ۳۲)
اس ارشاد ربانی میں تقویٰ کو دل کی کیفیت قرار دیا گیا ہے۔ قربانی کے جانور اس لیے اللہ کے شعائر ہیں کہ اللہ کے قرب کے لیے ان کو ذبح کیا جاتا ہے۔ چونکہ ان کی نسبت اللہ کی ذات کے ساتھ ہو جاتی ہے اس لیے یہ شعائر اﷲ میں سے ہو جاتے ہیں۔ قرآن حکیم میں ہے:
’’اور قربانی کے بڑے جانوروں (یعنی اونٹ اور گائے وغیرہ) کو ہم نے تمہارے لیے اﷲ کی نشانیوں میں سے بنا دیا ہے۔‘‘ (الحج، ۲۲: ۳۶)
قرآن و سنت کے اَحکام کے پیشِ نظر انسان اس نتیجے پر آسانی سے پہنچ جاتا ہے کہ خدا کی بارگاہ میں جس شے کی قدرو منزلت ہے وہ اس کی ظاہری صورت نہیں بلکہ اس کے اندر چھپی ہوئی حسنِ نیت اور دلوں کا تقویٰ ہے۔ قربانی کرنے والے نیت کے اخلاص اور تقویٰ کے باعث اللہ تعالیٰ کی رضا و خوش نودی حاصل کرتے ہیں۔ قربانی کا منتہائے مقصود تقویٰ اور پرہیزگاری ہے۔ اگر تقویٰ ہی نصیب نہیں تو پھر قربانی کرنا محض فضول رسم ہے۔ اس لیے خلوص اور صرف رضائے الٰہی کے حصول کی نیت سے ہی قربانی کرنی چاہیے۔