بلوچستان کے ضلع خضدار میں بچوں کی سکول بس پر خودکش حملہ قوم کی رگوں میں اترتی ہوئی وہ چیخ ہے جسے صرف سننا کافی نہیں، اسے محسوس کرنا، سمجھنا اور اس کے خلاف کھڑا ہونا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
خضدار کا زیرو پوائنٹ، جو بچوں کے اسکول پہنچنے کا راستہ تھا، خون کی ہولی کا میدان بن گیا۔ ایک اسکول وین، جو علم کا پیام لے جا رہی تھی، جہالت اور درندگی کے سفاک وار کا نشانہ بنی۔ دھماکے کی شدت نے نہ صرف بس کو چکنا چور کر دیا بلکہ ان والدین کے خواب بھی راکھ کر دیے جو صبح اپنے بچوں کو دعاؤں کے ساتھ روانہ کرتے ہیں کہ وہ تعلیم حاصل کر کے کل کا روشن پاکستان بنائیں گے۔
یہ کیسی دہشتگردی ہے جو بچوں سے ان کا بچپن چھین لیتی ہے؟ یہ کس قدر سفاک ذہنیت ہے جو تعلیم کے قافلے کو بموں سے روکنا چاہتی ہے؟ یہ سوال صرف خضدار کے لوگوں کا نہیں، یہ سوال پوری قوم کے ضمیر پر دستک دے رہا ہے۔ کب تک ہم صرف مذمت کریں گے؟ کب تک ہم صرف دعائیں کریں گے؟ کب ہم واقعی ان درندہ صفت عناصر کے خلاف متحد ہو کر ایک فیصلہ کن جنگ کا آغاز کریں گے؟
خضدار کا دھماکہ محض ایک واقعہ نہیں، یہ ریاست، حکومت، سیکیورٹی اداروں اور پوری قوم کے لیے ایک کھلا چیلنج ہے۔ یہ بتا رہا ہے کہ دشمن اب صرف فوجی تنصیبات یا پولیس چیک پوسٹوں تک محدود نہیں رہا، بلکہ وہ ہماری نسل نو پر حملہ آور ہے۔ وہ ان ننھے بچوں سے ان کا حقِ تعلیم، حقِ زندگی، اور حقِ خواب بھی چھیننا چاہتا ہے۔
وزیر داخلہ محسن نقوی نے درست کہا کہ یہ حملہ ملک میں بدامنی پھیلانے کی گھناؤنی سازش ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ ان سازشوں کو پنپنے ہی کیوں دیا جاتا ہے؟ دہشتگردی کی کمر توڑنے کے لیے فقط بیانات کافی نہیں، بلکہ عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ان کے سہولت کاروں کا قلع قمع کیے بغیر امن کا قیام محض ایک سراب ہے۔
آج کا پاکستان ایک طویل جنگ سے گزر چکا ہے۔ دہشتگردی کے خلاف ہزاروں جوانوں، پولیس اہلکاروں، صحافیوں اور عام شہریوں نے جانوں کا نذرانہ دیا ہے۔ لیکن کیا ہم نے ان قربانیوں کی حفاظت کی؟ اگر اب بھی ہمارے اسکول وین محفوظ نہیں، تو ہمیں خود سے سوال کرنا ہوگا کہ ہماری پالیسیز، ہماری حکمتِ عملی، اور ہماری نیتوں میں کہاں کمی رہ گئی؟
ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ دہشتگردی صرف بموں اور بندوقوں کا نام نہیں، یہ ایک سوچ ہے، ایک زہریلا بیانیہ ہے، جو تعلیم، رواداری اور ترقی سے نفرت کرتا ہے۔ اس سوچ کو شکست دینے کے لیے ہمیں صرف فوجی کارروائی نہیں بلکہ تعلیمی اصلاحات، سماجی ہم آہنگی، اور قومی اتحاد کی بھی اشد ضرورت ہے۔
خضدار کے اس واقعے نے ہماری آنکھیں کھول دی ہیں۔ ہمیں اس لمحے کو ایک موڑ بنانا ہوگا۔ ہمیں اپنے بچوں کے لیے ایک ایسا پاکستان دینا ہوگا جہاں اسکول وین خوف کا نہیں، بلکہ روشنی، علم، اور مستقبل کا استعارہ ہوں۔ جہاں مائیں اپنے بچوں کو الوداع کہتے وقت خوفزدہ نہ ہوں، بلکہ پُرامید ہوں۔
ریاست کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر اس واقعے کے تمام ذمہ داران کو گرفتار کرے، ان کے سہولت کاروں کو بے نقاب کرے، اور عوام کو اعتماد میں لے کہ دہشتگردوں کا کوئی مستقبل اس سرزمین پر نہیں۔ یہ صرف مقتولین کے اہلخانہ سے ہمدردی نہیں بلکہ پوری قوم کا مطالبہ ہے۔
اس حوالے سے عوامی تحریک کے سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈاپور کا بیان نظر سے گزرا انہوں نے درست کہا کوئی گرا ہوا ذہن ہی اس طرح کی کارروائی میں ملوث ہو سکتا ہے۔ بچوں پر حملہ کرنے والے دہشت گرد اور منصوبہ ساز انسانیت کے منہ پر طمانچہ ہیں، وہ دشمن جو سامنے آ کر لڑنے کی جرأت سے محروم ہے وہ چھپ کر اب ہمارے بچوں کو نشانہ بنارہے ہیں، دہشت گردوں اور پس پردہ منفی کرداروں کا یہ عمل قابل مذمت بھی ہے اور قابل گرفت بھی ہے، قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت گردی کی اس واردات میں ملوث تمام کرداروں کو عبرتناک سزا دینے کے لئے تمام ریاستی وسائل بروئے کار لائیں۔ شہید بچوں کے والدین کے ساتھ دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہیں، اللہ رب العزت اُنہیں صبر دے۔ ان شاء اللہ معصوم بچوں کا یہ خون رائیگاں نہیں جائے گا،دہشت گرد اپنے ناپاک ارادوں کے ساتھ نیست و نابود ہونگے، پوری دنیا کو دہشت گردی کی اس واردات پر پاکستان اور اس کے عوام کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے اور دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو توڑنے کے لئے ہر طرح کی مدد کرنی چاہیے۔ پاکستان نے دہشت گردی کی جنگ میں جان و مال کی لا تعداد قربانیاںدی ہیں، ہم دنیا کے امن کے لئے مسلسل قربانیاں دینے والی قوم ہیں۔
خضدار کا المناک سانحہ پاکستانی قوم کے عزم کو کمزور نہیں کر سکتا۔ ہم نے ہمیشہ دہشت گردی کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔
خضدار میں علم اور انسانیت کے دشمنوں کا حملہ
بچوں پر حملہ کرنے والے دہشت گرد اور منصوبہ ساز انسانیت کے منہ پر طمانچہ ہیں، وہ دشمن جو سامنے آ کر لڑنے کی جرأت سے محروم ہے وہ چھپ کر اب ہمارے بچوں کو نشانہ بنارہے ہیں