تحریر: ایم اے زیب رضا خان
جب تم یہ سیکھ جاؤ گے کہ ہر بات کا جواب دینا ضروری نہیں، ہر رائے کو دل پر لینا لازم نہیں، اور ہر واقعے کو زندگی کا فیصلہ کن لمحہ سمجھنا بےوقوفی ہے تو تمہاری روح کو سکون ملنا شروع ہو جائے گا۔
ہم ایک شور زدہ دور میں جی رہے ہیں۔ سوشل میڈیا، واٹس ایپ گروپس، ٹی وی اسکرینز، اور گلی محلے کی باتوں نے ہمارے ذہنوں کو اس قدر بوجھل کر دیا ہے کہ ہمیں ہر وقت کسی نہ کسی رائے، تبصرے، یا تجزیے کا جواب دینے کی بےچینی رہتی ہے۔ ہم اپنی ذات کو دوسروں کے لفظوں کی قید میں دے چکے ہیں۔ کسی نے تنقید کی، تو فوراً غصے سے بھر گئے۔ کسی نے تعریف نہیں کی، تو دل شکستہ ہو گئے۔ کسی نے غلط فہمی میں بات کر دی، تو خود کو مظلوم سمجھ کر کڑھتے رہے۔ اور یوں ہم اپنے اندر ایک ایسا طوفان پال لیتے ہیں، جو صرف ہمارا ہی سکون برباد کرتا ہے۔
زندگی کی سب سے بڑی دانش مندی یہ ہے کہ ہم اپنے ردِعمل کو قابو میں رکھنا سیکھ لیں۔ ہم نے ہمیشہ یہ سنا کہ جواب دینا بہادری ہے،اپنی صفائی پیش کرنا ضروری ہے، ہر سوال کا جواب دینا فرض ہے لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ جواب نہ دینا بھی حکمت ہے، خاموش رہنا بھی بہادری ہے، اور اپنی ذات کو سکوت کی ڈھال میں محفوظ رکھنا ہی اصل طاقت ہے۔
ایک صاحب تھے، جنہیں دفتر میں ایک ساتھی اکثر طعن و تشنیع کا نشانہ بناتا۔ وہ ہر بار برداشت کرتے، خاموش رہتے۔ کچھ لوگ اُنہیں بزدل سمجھتے، لیکن وہ شخص اپنی کام یابی کی طرف بڑھتا گیا۔ ایک دن اُس کے تنقید کرنے والے نے خود اُسے تسلیم کیا، کہ تمہاری خاموشی نے مجھے میری غلطی کا احساس دلایا۔ یہ صرف ایک واقعہ نہیں، ایسی مثالیں زندگی کے ہر شعبے میں بکھری ہوئی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، ’’جس نے خاموشی اختیار کی، اُس نے نجات پائی۔‘‘ (ترمذی)۔
یہ خاموشی صرف زبان بند رکھنا نہیں، بلکہ دل و دماغ کو ایسے ردِعمل سے بچانا ہے جو ہمیں کمزور اور الجھا دے۔
بچپن میں ہمیں بتایا جاتا تھا کہ جب کوئی تمہیں تنگ کرے، تو اُسے نظر انداز کرو۔ تب ہم شاید ہنس کر آگے بڑھ جاتے تھے۔ لیکن بڑے ہو کر ہم بھول گئے کہ یہ حکمت بچپن کی نہیں، بلکہ پوری زندگی کی ہے۔ ہر بحث جیتنے کے لیے نہیں ہوتی، ہر الزام کا جواب ضروری نہیں ہوتا، اور ہر سوال کا مطلب جواب کا مطالبہ نہیں ہوتا۔ بعض اوقات آپ کا سکوت، آپ کا سب سے پُراثر جواب بن جاتا ہے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ "کبھی کبھار انسان کا وقار اُس کے صبر میں پوشیدہ ہوتا ہے، اور اُس کی عزت اُس کی خاموشی میں ہے۔” یہ الفاظ اُن کا اپنا مجرب تجربہ ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ اُن پر بھی الزامات لگے، دشمنوں نے سازشیں کیں، مگر اُنہوں نے ہمیشہ برداشت کو ترجیح دی۔ یہی ظرف اُنہیں ممتاز بناتا ہے۔
ہمیں یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہر شخص اپنی تربیت، سوچ اور ذہن کے مطابق بات کرتا ہے۔ اگر کوئی زہر اُگلتا ہے، تو وہ دراصل اپنے اندر کے زہر کا مظاہرہ کرتا ہے، نہ کہ آپ کے کردار کا۔ آپ اُس کا منہ بند نہیں کر سکتے، لیکن اپنے دل کو بند کر سکتے ہیں کہ اُس کا زہر اندر نہ اُترے۔اسی لیے بعض اوقات خاموشی ہماری روح کے لیے ڈھال بن جاتی ہے۔
آپ نے کبھی دریا کو دیکھا ہے؟ جب کوئی پتھر اُس میں پھینکا جاتا ہے، تو وہ صرف ایک لمحے کے لیے ہلچل مچاتا ہے، پھر پانی دوبارہ پرسکون ہو جاتا ہے۔ ہمیں بھی دریا کی مانند بننے کی ضرورت ہے۔ جب کوئی نفرت کا پتھر پھینکے، تو ہمیں ردِعمل کے طوفان میں بہہ جانے کے بجائے خاموشی کی سطح برقرار رکھنی چاہیے۔ کیونکہ ردِعمل صرف لمحاتی تسکین دیتا ہے، جبکہ ضبط ہمیشہ کی عزت بناتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں یہ عام رویہ بن چکا ہے کہ ہمیں ہر وقت اپنی صفائی دینی ہے، اپنی رائے واضح کرنی ہے، اپنی سچائی ثابت کرنی ہے۔ لیکن اگر ہم صرف رب کی رضا کو مقصود بنا لیں، تو ہمیں دنیا کی وضاحتوں کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ ایک بار کسی صوفی بزرگ سے کسی نے کہا کہ فلاں تمہارے بارے میں یہ کہہ رہا ہے۔ اُس نے ہنس کر جواب دیا، "اُس کی رائے اُس کی ہے، میری حقیقت میرے رب کے علم میں ہے
یاد رکھیں، دنیا کی زبانیں تھکتی نہیں، لوگوں کے خیالات رکنے والے نہیں، اور تنقید کرنے والوں کی قلت کبھی نہیں ہو گی۔ لیکن اگر تم خود کو اُن کے ہر لفظ پر ٹوٹنے سے بچا لو، تو تم ایک دن مکمل شخص بن جاؤ گے۔ جو اپنی خاموشی کے سہارے جیتے ہیں، اُنہیں وقت خود بولنے کا موقع دیتا ہےاور جب وقت بولتا ہے، تو مخالفین کے پاس خاموشی کے سوا کچھ نہیں بچتا۔
لہٰذا اپنے ذہن، دل اور روح کو خالی شور سے بچاؤ۔ اپنی توانائی اُن چیزوں پر صرف کرو جو تمہارے مقصد، تمہارے رب، اور تمہارے ضمیر سے جڑی ہوں۔ باقی دنیا کو اُن کے حال پر چھوڑ دو۔ خاموشی اختیار کرو، دعا مانگو، عمل کرو، اور رب کی رضا پر راضی رہو۔
کیونکہ سچ یہی ہےکبھی کبھی خاموشی سب سے پُراثر اور باوقار جواب ہوتی ہے۔