تحریر :پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری (ماہر معاشیات )
پاکستان کی گندم صرف ایک فصل نہیں یہ ہماری خود کفالت، خود انحصاری اور بقا کی علامت ہے۔ ہمیں اس نعمت کی قدر کرنی چاہیے اور وہ تبھی ممکن ہے جب کسان مطمئن، محفوظ اور بااختیار ہو۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس کی معیشت کا بڑا انحصار زراعت پر ہے، اور گندم اس شعبے کی بنیاد سمجھی جاتی ہے۔ گندم نہ صرف ملک کی غذائی ضروریات پوری کرتی ہے بلکہ لاکھوں کسانوں کا ذریعہ معاش بھی ہے۔ پاکستان کے صوبہ پنجاب میں گندم سب سے زیادہ کاشت کی جاتی ہے جو کہ پاکستان میں زیر کاشت کل رقبے کا تقریباً 72 فیصد حصہ بنتا ہے اور یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ پنجاب پاکستان کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔
پاکستان میں گندم کی اوسط سالانہ پیداوار تقریباً 27 سے 28 ملین میٹرک ٹن کے درمیان رہی ہے، تاہم حالیہ برسوں میں موسمیاتی تبدیلیوں، آبی قلت، اور زرعی پالیسیوں میں عدم تسلسل کے باعث اس پیداوار میں تسلی بخش اضافہ نہیں ہو سکا۔ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق،2024-25ء کے سیزن میں گندم کی پیداوار تقریباً 26.8 ملین میٹرک ٹن رہی، جو کہ ملک کی ضروریات سے کم ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے حکومت کو بیرونی ممالک سے گندم درآمد کرنا پڑی، جس سے نہ صرف زرمبادلہ کا نقصان ہوا بلکہ ملکی کسانوں کی حوصلہ شکنی بھی ہوئی۔دوسری جانب، کسان جو دن رات محنت کرتے ہیں، آج بے شمار مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔
ایک طرف کھاد، بیج، زرعی ادویات ،بجلی اورپانی کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے، تو دوسری جانب ان کی پیداوار کی مناسب قیمت نہیں ملتی۔ کھاد کی مصنوعی قلت اور بلیک مارکیٹنگ نے حالات کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ چھوٹے کسان جو پہلے ہی قرضوں تلے دبے ہوئے ہوتے ہیں، مہنگے ان پٹ اخراجات کے باعث اپنی زمین پر کاشت کرنے سے قاصر ہوتے جا رہے ہیں۔ حکومت کی جانب سے سبسڈی کی پالیسی یا تو واضح نہیں یا پھر عملی سطح پر اس کا فائدہ محدود طبقے تک ہی پہنچ پاتا ہے۔زرعی زمینوں پر ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی یلغار نے بھی گندم کے زیر کاشت رقبے میں کمی پیدا کی ہے۔ شہروں کے پھیلاؤ نے زرعی زمین کو نگلنا شروع کر دیا ہے جس سے ملک کی فوڈ سیکیورٹی کو خطرات لاحق ہو رہے ہیں۔ پانی کی قلت اور نہری نظام کی بدحالی بھی گندم کی پیداوار کو متاثر کر رہی ہے۔ خاص طور پر بلوچستان اور سندھ کے کسان اس صورتحال سے شدید متاثر ہیں، جہاں نہری پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے وہ اپنی زمینوں کو سیراب نہیں کر پاتے۔
مزید برآں، موسمیاتی تبدیلیاں جیسے کہ غیر متوقع بارشیں، ژالہ باری اور شدید گرمی کی لہر فصلوں کی نشوونما کو بری طرح متاثر کرتی ہیں۔ ان چیلنجز کے باوجود کسان اپنی زمین سے وفادار ہے۔ وہ ہر سال ایک نئی امید کے ساتھ بیج بوتا ہے، شاید کہ اس بار حالات بہتر ہوں اور اسے اس کی محنت کا صلہ ملے۔یہ وقت ہے کہ حکومت زراعت کے شعبے کو محض تقریروں سے نہیں بلکہ عملی اقدامات سے ترجیح دے۔ کسانوں کو جدید زرعی ٹیکنالوجی کی تربیت، آسان قرضے، معیاری بیج اور کھاد کی فراہمی اور ان کی پیداوار کے لیے مناسب قیمت کی ضمانت دی جائے۔ گندم کی بہتر پیداوار کے لیے ریسرچ اداروں کو فعال بنایا جائے اور مقامی سطح پر موسمی تبدیلیوں کے مطابق بیج تیار کیے جائیں۔ اگر کسان کو اعتماد دیا جائے، تو وہ صرف اپنے خاندان کا پیٹ نہیں بلکہ پورے ملک کی ضروریات کو پورا کر سکتا ہے۔
پاکستان کو اگر غذائی خود کفالت حاصل کرنی ہے تو دیہی معیشت کو مضبوط بنانا ہوگا۔ کسانوں کو مراعات دیے بغیر گندم کی پیداوار میں خودکفالت کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ کسان آج بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہےنہ اسے صحت کی سہولت حاصل ہےنہ تعلیم کی اور نہ ہی فصل بیچنے کے لیے شفاف مارکیٹ سسٹم ۔وہ یا تو مڈل مین کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہوتا ہے یا سرکاری گوداموں کے طویل اور پیچیدہ طریقہ کار میں الجھ کر اپنا فائدہ گنوا بیٹھتا ہے۔اس وقت پاکستان میں گندم کا مسئلہ صرف پیداوار کا نہیں بلکہ انتظام و انصرام، پالیسی سازی، اور نیت کا ہے۔ اگر ہم دیانتداری سے کسان کی فلاح کو اپنی ترجیح بنا لیں، تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان دوبارہ گندم میں نہ صرف خود کفیل ہوگا بلکہ برآمد کنندہ ممالک میں بھی شامل ہو جائے گا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت، ماہرینِ زراعت، تعلیمی ادارے اور نجی شعبہ ایک پلیٹ فارم پر آ کر جامع حکمت عملی مرتب کریں اورگندم کی پیداوار کو ایک معاشی ستون سمجھتے ہوئے اس کی بہتری کے لیے سنجیدہ اقدامات کریں، تاکہ پاکستان خوراک کے بحران سے نکل کر ایک مضبوط زرعی معیشت کی طرف بڑھ سکے۔