زمبابوے کے آل راؤنڈر سکندر رضا نے ایک فلمی انداز میں برمنگھم سے لاہور تک کا سفر کیا اور پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) 10 کے فائنل میں لاہور قلندرز کو چیمپئن بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ انگلینڈ میں ٹیسٹ میچ کھیلنے کے بعد وہ تین پروازیں بدل کر ٹاس سے چند لمحات قبل قذافی اسٹیڈیم پہنچے۔ انہوں نے 22 رنز کی دھواں دار اننگز کھیلی اور آخری اوور میں چوکا لگا کر میچ جتوایا۔ ان کی یہ کہانی سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی ہے۔
لاہور قلندرز کے سٹار آل راؤنڈر سکندر رضا نے پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) 10 کے فائنل میں شاندار فتح کے بعد اپنے ایک حیرت انگیز سفر کی داستان سنائی، جو کسی فلم سے کم نہیں۔
سکندر رضا نے حال ہی میں انگلینڈ کے شہر ناٹنگھم میں زمبابوے کی طرف سے ایک ٹیسٹ میچ کھیلا، جو پاکستانی وقت کے مطابق ہفتے کی رات ختم ہوا۔
اس کے باوجود وہ حیران کن طور پر لاہور قلندرز کے اسکواڈ میں بروقت شامل ہو گئے اور ٹاس سے چند لمحات قبل لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں اپنی ٹیم کے ساتھ موجود تھے۔
سکندر رضا کی بروقت آمد لاہور قلندرز کے لیے نعمت ثابت ہوئی۔ انہوں نے 22 رنز کی جارحانہ اننگز کھیلی اور فائنل کے آخری اوور کی پانچویں گیند پر فہیم اشرف کی لو فل ٹاس پر چوکا مار کر ٹیم کو فتح سے ہمکنار کیا۔
میچ کے بعد بات چیت کرتے ہوئے سکندر رضا نے بتایا کہ ’میں نے ہفتے کو تقریباً 25 اوورز بیٹنگ کی۔ میں نے برمنگھم میں رات کا کھانا کھایا، دبئی میں ناشتہ کیا، اتوار کو ابوظہبی میں دوپہر کا کھانا کھایا اور آخر کار لاہور پہنچ گیا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’میں جانتا تھا کہ میری ٹیم کو میری کتنی ضرورت ہے۔ جیت کر بہت اچھا لگا۔ میں ذہنی اور جسمانی طور پر پوری طرح تھک چکا تھا، لیکن میں نے خود سے کہا کہ جو بھی گیند آئے، اس پر بہترین شاٹ کھیلنا ہے۔‘
سکندر رضا نے یہ بھی بتایا کہ ’یہ ہمارا تیسرا ناک آؤٹ میچ تھا، اور ہم پوری تیاری کے ساتھ آئے تھے۔ آصف علی کو کنکشن کی وجہ سے باہر ہونا پڑا، اور محمد نعیم بھی مکمل فٹ نہیں تھے، اس لیے مجھے اندازہ تھا کہ مجھے کچھ خاص کرنا ہوگا۔‘
یہ سفر سکندر رضا کے لیے آسان نہیں تھا۔ انہوں نے انگلینڈ میں ٹیسٹ میچ کے دوران 25 اوورز بالنگ کی اور 20 اوورز سے زیادہ بیٹنگ کی۔ ٹیسٹ میچ ہارنے کے بعد وہ فوراً برمنگھم سے دبئی کے لیے روانہ ہوئے، جہاں انہیں چھ گھنٹے کا انتظار کرنا پڑا۔ اس کے بعد وہ ابوظہبی گئے اور وہاں سے لاہور کے لیے پرواز لی۔ وہ لاہور ٹاس سے صرف دس منٹ قبل پہنچے، لیکن لاہور قلندرز نے ان پر بھروسہ کیا اور انہیں ٹیم میں شامل کیا۔
سکندر رضا نے میچ میں نہ صرف بیٹنگ سے کمال دکھایا بلکہ بالنگ میں بھی حصہ لیا۔ انہوں نے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے خطرناک بیٹسمین ریلی روسو کا وکٹ لیا اور 4 اوورز میں 43 رنز دے کر 1 وکٹ حاصل کی۔ جب لاہور قلندرز کو 202 رنز کے ہدف کا تعاقب کرنا تھا، تو وہ اس وقت بیٹنگ کے لیے آئے جب ٹیم کو آخری 20 گیندوں پر 57 رنز درکار تھے۔
انہوں نے محمد عامر کی پہلی دو گیندوں پر چوکا اور چھکا مار کر میچ کا پانسہ پلٹ دیا۔ اس کے بعد کوسل پریرا نے بھی تین چھکوں اور دو چوکوں کی مدد سے 62 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیلی۔ آخری اوور میں جب 8 رنز درکار تھے، سکندر رضا نے فہیم اشرف کی گیند پر ایک چھکا اور پھر چوکا مار کر میچ ختم کر دیا۔
لاہور قلندرز نے یہ فتح 6 وکٹوں سے حاصل کی اور یہ پی ایس ایل فائنل میں اب تک کا سب سے بڑا کامیاب رن چیس تھا۔ اس جیت کے ساتھ لاہور قلندرز نے اپنا تیسرا پی ایس ایل ٹائٹل جیتا، جو انہوں نے 2022 اور 2023 میں بھی حاصل کیا تھا۔
سکندر رضا کی اس فلمی کہانی نے سوشل میڈیا پر خوب دھوم مچائی۔ ایک صارف نے لکھا کہ ’سکندر رضا نے انگلینڈ سے لاہور تک کا سفر کر کے ثابت کر دیا کہ وہ سچا ہیرو ہے۔‘ ایک اور صارف نے کہا کہ ’یہ کہانی کسی فلم سے کم نہیں، جہاں ہیرو آخری لمحات میں آتا ہے اور میچ جتواتا ہے۔‘
سکندر رضا کی اس جرات مندانہ کارکردگی نے نہ صرف لاہور قلندرز کے مداحوں کے دل جیتے بلکہ پوری دنیا میں کرکٹ شائقین کی توجہ حاصل کی۔ انہوں نے اپنی تھکاوٹ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے ٹیم کے لیے سب کچھ جھونک دیا اور ثابت کر دیا کہ وہ ایک سچے آل راؤنڈر ہیں۔
یہ فتح لاہور قلندرز کے لیے ایک تاریخی لمحہ تھی، اور سکندر رضا کی کہانی اس فتح کو اور بھی یادگار بنا گئی۔ ان کا یہ سفر کرکٹ کی دنیا میں ایک مثال بن گیا کہ عزم اور جذبہ کس طرح ناممکن کو ممکن بنا سکتا ہے۔