افراد کی بجائے ادارے مضبوط ہونے چاہئیں

مقصد تحریر یہ ہے ہمیں گھمنڈ کے اظہار کے لیے طاقت نہیں چاہیے بلکہ بحیثیت مسلمان ہمیں اپنی طاقت کو اللہ کے نظام کے نفاذ اور انسانی مساوات و عدل کے قیام کیلئے بروئے کار لانا ہے تاکہ برائی کی کوئی قوت ہمارے اقتدار اعلیٰ کو چیلنج نہ کر سکے

مکہ کے تاجر اور متمول خاندان محض اس بنا پر پیغمبر آخر الزماںﷺکی مخالفت نہ کرتے تھے کہ آپؐ انہیں ایک نئے دین اور ضابطہ حیات اختیار کرنے کی دعوت دے رہے تھے یا کفار مکہ کو ان کے آبائو اجداد کے مذہبی راستے سے ہٹا رہے تھے کفار اپنے آبائو اجداد کی مذہبی رسومات و روایات کے اتنے بھی پاسدار نہ تھے کہ انہیں اس اعتقادی سلسلہ کی تکذیب منظور نہ تھی بلکہ ان کی مخالفت کی ایک بڑی وجہ آپ ﷺ کے سماجی و اقتصادی انصاف اور انسانی مساوات کا مطالبہ تھا، آپ ﷺ مکہ کے تاجروں اور امیروں کو دعوت دیتے تھے کہ وسیع الظرف اور سخی بنیں، اپنی دولت اپنی تجوریوں تک محدود کرنے کی بجائے لوگوں پر خرچ کریں، کمزوروں کو تلوار اور طاقت کے زور پر غلام نہ بنائیں، ان کے بنیادی حقوق غضب نہ کریں، خواتین کو کمزور و ناتواں جان کر انہیں تختہ مشق نہ بنائیں، لاتعداد خدائوںکی پوجا کرنے کی بجائے ایک خدا پر ایمان لائیں یہی وہ مذہبی اور سیاسی چارٹر تھا جسے سن کر مکہ کی اشرافیہ آگ بگولہ ہو جاتی تھی، انہیں خوف لاحق تھا کہ اس محمدی سیاست کے نفاذ و اجراء سے ان کی اجارہ داری ختم ہو جائے گی اور وہ عام انسان بن کر رہ جائیں گے ان کا رعب و دبدبہ ختم ہو جائے گا۔ وہ جان گئے تھے کہ اس ’’نیو ورلڈآرڈر‘‘ کے نفاذ سے جائز و ناجائز طریقے سے دولت کے انبار جمع کرنے اور ان کے امیر سے امیر تر ہونے کا سلسلہ رک جائے گا۔

حضور نبی اکرم ﷺ کے مکی دعوتی دور کا سبق ہے کہ جب بھی انسانی مساوات، عدل و انصاف، قانون و اخلاق کی پاسداری، حقوق و فرائض کی بجا آوری، دولت کے ارتکاز کے خاتمہ اور استحصال سے پاک تجارتی لین دین عام آدمی کے مفادات کے تحفظ اور جائز منافع کی بات کی جائے گی تو اس دعوت اور پیغام کی مخالفت میں سب سے پہلے تاجر، امیر خاندان اور اشرافیہ سامنے آئے گی اور مزاحمت کی شدت جان لیوا ہو گی چونکہ جرائم پیشہ ذہنیت کی طاقت اور خوشحالی کی جڑیں لاقانونیت سے پھوٹتی ہیں، ایسی ذہنیت کبھی بھی قانون کی حکمرانی اور نظام عدل کی فعالیت کو گوارا نہیں کرتی، جہاں قانون و انصاف کا بول بالا ہو گا وہاںکوئی بھی شخص دولت کے پہاڑ کھڑے نہیں کر سکے گا کیونکہ دولت کے ان پہاڑوںکا اینٹ گارا کمزور لوگوں کا خون پسینہ اور ان کی ہڈیوں کا پروٹین ہوتا ہے، حضور نبی اکرم ﷺ کی ساری جدوجہد ظلم اور استحصال کے خاتمہ کے لئے ایک ایسے انتظامی، اقتصادی، سماجی و معاشرتی ڈھانچہ کی تشکیل کے لئے تھی جس کے ہوتے ہوئے کوئی طاقتور الوہی قوانین و احکامات کی خلاف ورزی نہ کر سکے اور کمزور لوگوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنا سکے، مکہ کے کفار تاجر اور مالدار طبقہ نے اس مصطفوی مشن کو ناکام بنانے کے لئے سارے وسائل اور جملہ طاقت مختص کر دی، ان کے ظلم و بربریت کے انتہا کو پہنچنے پر حضور نبی اکرم ﷺ اور ان کے ساتھیوں کو اذن ہجرت ملا اور آپ ﷺ مدینہ منورہ تشریف لے گئے اور اسلام کے سیاسی، سماجی، اقتصادی، سفارتی، معاشرتی، عدالتی نظام حیات کی تشکیل و تنفیذ کے لئے مشغول ہو گئے، اسلام کے اس معاشرتی ڈھانچہ کی روح امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے ساتھ ساتھ جان و مال کاتحفظ اور انسانی مساوات تھی، یہی وجہ ہے کہ مکہ کے تاجر اور مالداروں کی بدستور نیندیں حرام تھیں، حضور نبی اکرمﷺ اور ان کے ساتھیوںکو مکہ چھوڑ دینے پر مجبور کر دینے کو وہ اپنی کامیابی قرار دینے کی بجائے مزید فکر مند ہو گئے تھے ،ان کے سامنے دم توڑتا ہوا ان کا طبقاتی نظام معاشرت تھا، وہ ہر حال میں ان مصطفوی اہداف کو ختم کر دینا چاہتے تھے اور انہوں نے مدینہ آ کر جارحیت معرکہ بدر بپا کیا مگر اب بہت دیر ہو چکی تھی نظام ربانی کو اپنے وجود کا احساس دلانا تھا اور دنیا کو ظلمت و گمراہی کے اندھیروں سے نکلنا تھا اور پھر غزوہ بدر میںمکہ کے تاجروں، مالداروں اور جاگیرداروںکو شکست ہوئی اور اس شکست کا سلسلہ کامل فتح مکہ پر جا کر موقوف ہوا اور یوں کرہ ارض کی پہلی ماڈل اسلامی ریاست، ریاست ِمدینہ وجود میںآئی۔

عدم برداشت کی بڑی وجہ اختلاف رائے کا احترام نہ کرنا ہے:ڈاکٹر حسن قادری

ریاست مدینہ میں آپ ؐکی توجہ کا مرکز صرف مقامی داخلی معاملات ہی نہ تھے بلکہ آپ نے داخلی و خارجی سیاست کے عالمی اصول وضع فرمائے جن کے تحت اس نظام عالم کو چلایا جاسکے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ نظام اور پیغام دنیا کے ایک وسیع حصے میں پھیل گیا۔ دس سال کے انتہائی قلیل عرصہ میں یہ اتنی بڑی، جامع اور ہمہ گیر کامیابی تھی کہ جس کی کوئی مثال تاریخ عالم میں اس سے پہلے یا بعد میں نہیں ملتی۔ اس تناظر میں اہل فکر و نظر کے لئے آپ ﷺ کی سیرت کا مطالعہ یقیناً کلیدی اہمیت کا حامل ہے کہ آخر یہ سب کچھ کس طرح ممکن ہوا؟ آپ کی کامیابیاں صرف قیام و استحکام ریاست یا سیاسی میدان تک ہی محدود نہ تھیں بلکہ قیام ریاست، استحکام نظام اور دستور و قانون کی تشکیل و نفاذ کیساتھ ساتھ اسلام کی دعوت و تبلیغ رسالت کا فریضہ بھی بتمام و کمال ادا ہوتا رہا اور اس میں کوئی کمی نہ ہوئی۔ اس ہمہ جہت جدوجہد اور کامیابی کی کوئی مثال تاریخ انبیاء میں بھی نہیں ملتی۔ دین وریاست، دنیا و آخرت اور قانون و اخلاق کی جامعیت سے آپ کی سیرت جامع اسوہ حسنہ قرار پائی۔ انسانی تہذیب کے تقاضوں کی تکمیل اس اسوہ حسنہ سے ہی ممکن ہے جہاں زندگی کا کوئی بھی گوشہ تشنہ توجہ نہ رہا ہو اور ہر حوالے سے مکمل رہنمائی عطا کر دی گئی ہو۔ سیرت نبویﷺ کی یہ خصوصیت آپ کے اسوہ کی کاملیت کی دلیل بھی ہے اور ختم نبوت کا ثبوت بھی۔

مقصد تحریر یہ ہے ہمیں گھمنڈ کے اظہار کے لیے طاقت نہیں چاہیے بلکہ بحیثیت مسلمان ہمیں اپنی طاقت کو اللہ کے نظام کے نفاذ اور انسانی مساوات و عدل کے قیام کیلئے بروئے کار لانا ہے تاکہ برائی کی کوئی قوت ہمارے اقتدار اعلیٰ کو چیلنج نہ کر سکے آج بھی مالدار سیاسی طاقت کا حامل طبقہ قانون و انصاف کے اداروں کو کمزور کرنے کے جتن کرتا رہتا ہے تاکہ اپنی خواہش کے مطابق اعتقادات سے کھیل سکے اور دولت کے پہاڑ کھڑے کر سکے،اپنی مرضی کے مطابق آئی پی پیز کے معاہدے مسلط کر سکے، پٹرول، گیس کے غیر منصفانہ نرخ مقرر کر سکے، جب چاہے گندم،چینی، آلو، پیاز، ٹماٹر کی قلت پیدا کر کے مرضی کی قیمتوں کے ساتھ مرضی کے وقت پر مارکیٹ میں لا سکے، جب تک عدل و انصاف کے ادارے کمزور رہیں گے کروڑوں افراد کی حق تلفی ہوتی رہے گی،اور ہم اپنے نصب العین سے ہٹتے چلے جائیں گے، ہمارے حکمران، ہمارے پالیسی سازوں کو ملک اور ریاست کے وسیع تر مفاد میں پارلیمنٹ اور نظام عدل و انصاف کو مضبوط اور طاقتور بنانا چاہیے، مضبوط نظامِ عدل و انصاف کی کوکھ سے ریاست مدینہ کے ماڈل کی اعلیٰ اخلاقی و انتظامی روایات کا احیا ہوگا، افراد کی بجائے اداروں کو مضبوط ہونا چاہیے کیونکہ افراد آتے جاتے رہتے ہیں جب کہ ادارے قائم و دائم رہتے ہیں۔

 

متعلقہ خبریں

مقبول ترین