ایک مہلک فنگس، ایسپرجیلوس، جو پھیپھڑوں پر حملہ آور ہوتا ہے، عالمی وبا کا خطرہ بن کر ابھر رہا ہے۔ مانچسٹر یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق، موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے یہ فنگس تیزی سے پھیل رہا ہے اور شمالی امریکا، یورپ، چین، اور روس جیسے علاقوں میں نئے خطرات پیدا کر رہا ہے۔ یہ فنگس انسانوں، جانوروں، اور پودوں میں خطرناک انفیکشنز کا باعث بنتا ہے، خاص طور پر کمزور مدافعتی نظام والے افراد کے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ ہر سال لگ بھگ 25 لاکھ افراد فنگل انفیکشنز سے ہلاک ہوتے ہیں، اور اس کی اموات کی شرح 20 سے 40 فیصد تک ہے۔ بروقت تشخیص کی کمی اور علاج کی مشکلات اسے ایک خاموش قاتل بناتی ہیں۔
ایک خاموش قاتل کا عروج
ایک ایسی مخفی خطرے نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کر دیا ہے جو نہ نظر آتا ہے، نہ آواز دیتا ہے، لیکن جسم کے اندر داخل ہو کر تباہی مچا دیتا ہے۔ سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ ’ایسپرجیلوس‘ نامی مہلک فنگس تیزی سے پھیل رہا ہے، جو انسانوں میں ’ایسپرجیلوسس‘ نامی جان لیوا بیماری کا باعث بنتا ہے۔ یہ فنگس پھیپھڑوں پر حملہ آور ہوتا ہے اور کمزور مدافعتی نظام والے افراد کے لیے موت کا پیغام بن سکتا ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کا کردار
برطانیہ کی مانچسٹر یونیورسٹی کے سائنسدانوں کی حالیہ تحقیق کے مطابق، موسمیاتی تبدیلیوں سے بڑھتا ہوا عالمی درجہ حرارت اس فنگس کے پھیلاؤ کے لیے نئے دروازے کھول رہا ہے۔ یہ فنگس اب ان علاقوں میں بھی سرگرم ہو رہا ہے جہاں پہلے اس کا وجود ناممکن تھا، جیسے شمالی امریکا، یورپ، چین، اور روس۔ اس کی بعض اقسام، جنہیں ’ماحولیاتی سپروٹروف‘ کہا جاتا ہے، نہ صرف انسانوں بلکہ جانوروں اور پودوں میں بھی خطرناک انفیکشنز پیدا کر رہی ہیں۔ اگرچہ یہ تحقیق ابھی سائنسی جانچ پڑتال سے گزر رہی ہے، لیکن اس کے نتائج نے عالمی طبی برادری کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
ایسپرجیلوسس: ایک جان لیوا بیماری
ایسپرجیلوس فنگس زمین میں باریک ریشوں کی شکل میں اگتا ہے اور لاکھوں کی تعداد میں چھوٹے چھوٹے اسپورز پیدا کرتا ہے۔ یہ اسپورز ہوا میں شامل ہو کر سانس کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہوتے ہیں۔ عام طور پر صحت مند افراد کا مدافعتی نظام ان سے نمٹ لیتا ہے، لیکن دمہ، سسٹک فائبروسس، کینسر، یا اعضاء کی پیوندکاری کے مریضوں کے لیے یہ موت کا باعث بن سکتے ہیں۔ محقق نورمن وین رائن کے مطابق، جب یہ فنگس جسم میں جگہ بنا لیتا ہے تو یہ ’’انسان کو اندر سے کھانے‘‘ لگتا ہے، جس سے پھیپھڑوں کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔
اموات کی شرح اور تشخیص کا چیلنج
ایسپرجیلوسس کی اموات کی شرح 20 سے 40 فیصد تک ہے، جو اس کی مہلک نوعیت کو ظاہر کرتی ہے۔ اس بیماری کی علامات، جیسے بخار، کھانسی، اور تھکن، اتنی عام ہیں کہ اکثر بروقت تشخیص نہیں ہو پاتی۔ اس کی وجہ سے علاج میں تاخیر ہوتی ہے، جو مریضوں کے لیے جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔ ہر سال دنیا بھر میں تقریباً 25 لاکھ افراد فنگل انفیکشنز سے ہلاک ہوتے ہیں، اور ماہرین کا خیال ہے کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ اس حوالے سے ڈیٹا کی کمی ہے۔
فنگل انفیکشنز پر تحقیق کی کمی
ماہر متعدی امراض نورمن وین رائن نے خبردار کیا ہے کہ فنگس وائرس اور بیکٹیریا کی طرح ہی خطرناک ہیں، لیکن ان پر تحقیق نہ ہونے کے برابر ہے۔ انہوں نے HBO کی مشہور سیریز ’دی لاسٹ آف اَس‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگرچہ یہ فکشنل کہانی انسانوں کو خوفناک مخلوق میں بدلنے کا تصور پیش کرتی ہے، لیکن اس نے فنگل انفیکشنز کی سنگینی کو اجاگر کیا۔ ان کے مطابق، حقیقت میں یہ فنگس اتنا ہی خطرناک ہے کیونکہ یہ خاموشی سے جسم کو تباہ کرتا ہے۔
عالمی وبا کا خطرہ
سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے فنگس کے پھیلاؤ کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔ عالمی درجہ حرارت میں اضافہ اور ماحولیاتی تبدیلیاں اس فنگس کو نئے علاقوں میں پھیلنے کا موقع دے رہی ہیں۔ اگر اسے روکنے کے لیے فوری اقدامات نہ کیے گئے تو یہ ایک عالمی وبا کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ خاص طور پر کمزور صحت کے نظام والے ممالک، جیسے پاکستان، اس سے شدید متاثر ہو سکتے ہیں۔
روک تھام کے لیے اقدامات کی ضرورت
ماہرین نے زور دیا ہے کہ اس خطرے سے نمٹنے کے لیے فوری آگاہی اور تحقیق کی ضرورت ہے۔ عوام کو چاہیے کہ وہ مشکوک علامات، جیسے مسلسل کھانسی یا سانس کی دشواری، کی صورت میں فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ اس کے علاوہ، صحت کے اداروں کو فنگل انفیکشنز کی تشخیص اور علاج کے لیے جدید سہولیات فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کو بھی اس خطرے کے خلاف عالمی سطح پر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
ایک خاموش خطرے کے خلاف جنگ
ایسپرجیلوس فنگس ایک خاموش قاتل ہے جو ہوا میں موجود اسپورز کے ذریعے ہمارے جسموں میں داخل ہو کر تباہی مچا رہا ہے۔ اس کے خلاف لڑائی کا پہلا قدم آگاہی ہے۔ ہمیں فنگس کو محض دیواروں پر اگنے والی پھپھوندی نہیں سمجھنا چاہیے، بلکہ اسے ایک سنگین عالمی خطرہ تسلیم کرنا ہوگا۔ اگر ہم نے بروقت اقدامات نہ کیے تو یہ فنگس انسانوں، جانوروں، اور پودوں کے لیے ایک ناقابل قابو وبا بن سکتا ہے۔ اب وقت ہے کہ ہم اس خاموش دشمن کے خلاف متحد ہو کر لڑیں