ہمارا موجودہ تعلیمی نظام بچوں کو صرف کتابیں رٹنے پر مجبور کرتا ہے، بدقسمتی سے زیادہ تر والدین اس پر بات پر یقین رکھتے ہیں کہ تعلیم کامطلب صرف سالانہ نصاب کو مہارت کے ساتھ رٹ لینا اور امتحان اچھے نمبروں سے پاس کرنا ہے۔ اس سوچ کے باعث بچوں کی فطری صلاحیتوں کا شیرازہ بکھر رہا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں کو تجرباتی طریقے سے چیزیں سیکھنے کی طرف راغب کریں۔ مثال کے طور پر اگر بچہ فزکس کے کسی قانون کو ٹھیک طریقے سے سمجھ نہیں پا رہا تو اسے عملی تجربہ کروائیں، پانی کے دباؤ یا روشنی کے انعکاس کو سمجھنے کے لیے گھر پر آسان تجربات کئے جاسکتے ہیں۔ اسی طرح ریاضی کو دلچسپ بنانے کے لیے روزمرہ کی زندگی سے مثالیں دیں، جیسے گروسری کی خریداری کے دوران بجٹ بنانا یا فاصلوں کا حساب لگانا۔ یہ طریقے بچوں میں نہ صرف دلچسپی پیدا کرتے ہیں بلکہ انہیں خود سیکھنے کی عادت ڈالتے ہیں۔
اسے بھی پڑھیں اولاد کی تربیت اور والدین کی ذمہ داریاں
معیاری تعلیم کا غلط تصور
ہر والدین کی یہ شدید خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بچہ اعلیٰ معیار کے سکول یا کالج میں تعلیم حاصل کرے تاکہ مستقبل میں اسے کسی اچھی یونیورسٹی میں بآسانی داخلہ مل سکے ۔ اس خواہش میں وہ بعض اوقات مہنگے تعلیمی اداروں کو ترجیح دیتے ہیں، یہ سمجھے بغیر کہ بھاری فیسوں والے اداروں میں اکثر اوقات تعلیم کا معیار صرف نصاب مکمل کرنے تک محدود ہوتا ہے۔ اساتذہ کی توجہ صرف سلیبس کور کرنے پر ہوتی ہے اور بچوں کو تخلیقی یا تنقیدی سوچ کے مواقع کم ملتے ہیں۔ والدین کو بچوں کی صلاحیتوں اور دلچسپیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تعلیمی اداروں کا انتخاب کرنا چاہیے۔بچہ اگر فنون لطیفہ یا کمپیوٹر پروگرامنگ میں دلچسپی رکھتا ہے تو اس کو ایسی جگہ داخل کرائیں جہاں اس کی صلاحیتوں میں مزید نکھار پیدا ہو ۔
غیر فطری دباؤ کا نقصان
ہمارے معاشرے میں ایک اور منفی رجحان جڑ پکڑ چیا ہے کہ والدین بچوں کو ان کی صلاحیتوں سے ہٹ کر میڈیکل یا انجینئرنگ جیسے شعبوں میں زبردستی داخل کرواتے ہیں۔ اگر بچہ میرٹ پر پورا نہ اترے تو رشوت کا سہارا لے کر اس کا داخلہ کروایا جاتا ہے، اور اسی طرح امتحانات پاس کرانے یا اچھے نمبر دلوانے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ یہ عمل بچوں کی خود اعتمادی کو مجروح کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں یہ پیغام دیتا ہے کہ کامیابی کے لیے محنت کی بجائے شارٹ کٹ اختیار کیے جا سکتے ہیں۔ تعلیم کا اصل مقصد ڈگری یا نوکری کا حصول نہیں بلکہ بچوں میں شعور، ذمہ داری، اور معاشرے کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ پروان چڑھانا ۔ تعلیمی نظام اور والدین کی غلط ترجیحات کےباعث ہمارے اداروں سے صرف ڈگری ہولڈرز نکل رہے ہیں جن میں سماجی بہبود یا قومی ترقی کے لیے کوئی جذبہ نہیں۔
بچوں کی دلچسپیوں کو سمجھنا
پیشہ جتنا اچھا ہو گا مالی استحکام کی ضمانت ہوتا ہے اس لئے اکثر والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بچہ ڈاکٹر، انجینئر، یا اکاؤنٹنٹ بنے تاکہ اسے مستقبل میں کسی مالی بحران کا سامنا نہ ہو،اس کے برعکس اکثر بچوں کی دلچسپی فنون لطیفہ، فلکیات، گرافک ڈیزائننگ، یا کمپیوٹر سائنس جیسے شعبوں میں ہوتی ہے، والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بچپن سے ہی بچوں کی دلچسپیوں کا مشاہدہ کریں اور انہیں ان شعبوں کی طرف راغب کریں۔ مثال کے طور پر اگر بچہ ڈرائنگ میں دلچسپی لے رہا ہے تو تو اسے آرٹ کلاسز میں داخل کروائیں یا گھر پر اس کے لیے آرٹ کے مواقع پیدا کریں۔ اسی طرح اگر بچہ پروگرامنگ سیکھنا چاہتا ہے تو اسے کوڈنگ کے آسان پروجیکٹس دیں۔ یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ بچے اپنی پسند کے مضامین میں بہتر کارکردگی دکھاتے ہیں، اور اس طرح والدین کو رشوت جیسے غیر اخلاقی ہتھکنڈوں کی ضرورت نہیں پڑتی۔
باہر کی دنیا سے رابطہ
امن و امان کی درگرگوں صورتحال اور دیگر برائیوں میں مبتلا ہونے کے خوف سے والدین بچوں کی دوستیوں اور ان کی صحبت کے حوالے سے فکر مند رہتے ہیںاور وہ بچوں کو باہر بھیجنے سے گریز کرتے ہیں۔ نتیجتاً بچوں کا زیادہ تر وقت سکرین کے سامنے گزرتا ہے جو نہ صرف ان کی صحت کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ ان کی خود اعتمادی اور سماجی صلاحیتوں کو بھی متاثر کرتا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو اپنی نگرانی میں باہر لے جائیں، انہیں کھیلوں کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی ترغیب دیں، اور ان کے ساتھ معیاری وقت گزاریں۔ اگر بچہ پڑھائی میں کمزور ہے یا ناکام ہوتا ہے، تو اسے ڈانٹنے کے بجائے ناکامی کی وجہ کو تلاش کریں۔ ناکامی دراصل کوشش کی علامت ہے۔ مشہور سائنسدانوں جیسے آئن سٹائن یا سٹیفن ہاکنگ نے بھی اپنے کیریئر کے ابتدائی دنوں میں ناکامیوں کا سامنا کیا، لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ اگر بچے کو جسمانی یا نفسیاتی مسائل ہیں، تو بروقت علاج کے ساتھ ساتھ انہیں ایسی سرگرمیوں کی طرف راغب کریں جو ان کے خوف کو کم کریں اور خود اعتمادی بحال کریں۔
ڈیجیٹل دور کے چیلنجز
ہم ایک ڈیجیٹل دور میں جی رہے ہیں جہاں سوشل میڈیا نے نہ صرف ہماری صبر کی صلاحیت کو کم کیا ہے بلکہ ہماری سماجی اور معاشرتی اقدار کو بھی متاثر کیا ہے۔ بچے ایک ایسی دنیا میں بڑے ہو رہے ہیں جہاں ان کے والدین بھی حقیقی زندگی سے زیادہ سوشل میڈیا پر وقت گزارتے ہیں۔ اس کا اثر بچوں کے رویوں پر پڑتا ہے، اور وہ ضدی یا خود سر ہوتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے رویوں میں لچک پیدا کریں اور بچوں کو سوشل میڈیا سے ہٹ کر ہم عمر بچوں کے ساتھ وقت گزارنے کی ترغیب دیں۔ اگر بچے آپس میں لڑتے ہیں، تو انہیں سختی سے گھر بٹھانے کے بجائے ان کے مسائل سمجھ کر حل کریں۔ بچوں کی غلطیوں کو نظر انداز کرنے کے بجائے انہیں مناسب انداز میں سمجھائیں تاکہ وہ دوسروں کے لیے ہمدردی اور احترام کا جذبہ سیکھیں۔
عملی اقدامات کے لیے تجاویز
بچوں کو کتابوں سے ہٹ کر عملی تجربات کے ذریعے سیکھنے کی عادت ڈالیں
بچوں کی فطری دلچسپیوں کو سمجھیں اور انہیں متعلقہ شعبوں میں آگے بڑھنے کے مواقع دیں
بچوں کے سکرین ٹائم کو محدود کریں اور انہیں آؤٹ ڈور سرگرمیوں کی طرف راغب کریں
بچوں کی ناکامیوں کو تنقید کی بجائے سیکھنے کے موقع کے طور پر دیکھیں
بچوں کے ساتھ معیاری وقت گزاریں اور ان کی بات سنیں تاکہ ان کی خود اعتمادی بڑھے
بچوں میں ہمدردی، احترام، اور ذمہ داری کے جذبات پیدا کریں
جہاں ہمارے تعلیمی نظام کے نقائص کو دور کرنے کیلئے ایک جامع اصلاح کی ضرورت ہے وہیں والدین کو بھی اپنے بچوں کی تربیت کے لیے خصوصی عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں یا بھاری فیسوں پر انحصار کرنے کے بجائے والدین کو بچوں کی فطری صلاحیتوں کو نکھارنے اور انہیں ایک ذمہ دار شہری بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔ بچوں کی کامیابی کا راز ان کی دلچسپیوں کو سمجھنے ان کی خود اعتمادی بڑھانے، اور انہیں زندگی کے چیلنجز کے لیے تیار کرنے میں مضمر ہے۔