امریکا نے 29 مئی 2025 کو اعلان کیا کہ اسرائیل نے غزہ میں جنگ بندی کے امریکی منصوبے پر دستخط کر دیے ہیں، جبکہ حماس اس تجویز کا جائزہ لے رہا ہے۔ وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرولین لیویٹ کے مطابق، اسرائیل نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف کی پیش کردہ تجویز قبول کر لی ہے، جس میں ابتدائی طور پر 60 روز کی جنگ بندی اور اقوام متحدہ کے ذریعے انسانی امداد کی فراہمی شامل ہے۔
حماس کے ایک عہدیدار نے کہا کہ وہ اس منصوبے کا باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہیں تاکہ فلسطینی عوام کے مفادات کا تحفظ اور اسرائیلی جارحیت کا مکمل خاتمہ یقینی بنایا جا سکے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے مبینہ طور پر قیدیوں کے خاندانوں کو اس معاہدے کی قبولیت کی اطلاع دی، حالانکہ ان کے دفتر نے اس کی تصدیق نہیں کی۔
وائٹ ہاؤس نے 29 مئی 2025 کو اعلان کیا کہ اسرائیل نے غزہ میں جنگ بندی کے لیے پیش کردہ امریکی منصوبے پر دستخط کر دیے ہیں۔ ترجمان کیرولین لیویٹ نے واشنگٹن میں صحافیوں کو بتایا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے مشرق وسطیٰ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف کی سربراہی میں تیار کردہ یہ تجویز اسرائیل نے تسلیم کر لی ہے۔ لیویٹ نے کہا کہ اب حماس اس منصوبے کا جائزہ لے رہا ہے، اور امید ہے کہ یہ معاہدہ غزہ میں 15 ماہ سے جاری تنازع کو روکنے میں مددگار ثابت ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ہم چاہتے ہیں کہ یہ جنگ بندی جلد نافذ ہو تاکہ تمام یرغمالی اپنے گھروں کو لوٹ سکیں۔‘‘
جنگ بندی منصوبے کی ابتدائی تفصیلات
اگرچہ وائٹ ہاؤس نے منصوبے کی ساری تفصیلات جاری نہیں کیں، نیویارک ٹائمز نے ایک اسرائیلی عہدیدار کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ اس معاہدے کے ابتدائی مرحلے میں 60 روز کی جنگ بندی شامل ہے۔ اس دوران اقوام متحدہ کے زیر انتظام غزہ میں انسانی بنیادوں پر امداد کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔ یہ امداد غذائی اشیا، ادویات، اور ایندھن پر مشتمل ہوگی، جو غزہ کے باسیوں کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے ناگزیر ہیں۔ اس منصوبے کا مقصد غزہ میں جاری انسانی بحران کو کم کرنا اور امن کے قیام کی راہ ہموار کرنا ہے۔
حماس کا محتاط جائزہ
حماس کے ایک سینئر عہدیدار نے غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کو بتایا کہ وہ اسٹیو وٹکوف کی پیش کردہ تجاویز کا ’’باریک بینی اور ذمہ داری‘‘ سے جائزہ لے رہے ہیں۔ عہدیدار نے کہا کہ ان کا بنیادی ہدف فلسطینی عوام کے مفادات کا تحفظ اور اسرائیلی جارحیت کا مستقل خاتمہ ہے۔ حماس نے ماضی میں جنگ بندی کے لیے مستقل امن اور اسرائیلی فوج کے مکمل انخلا کو اپنی شرائط کا حصہ بنایا ہے، جو اس معاہدے کے جائزے میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔ عہدیدار نے مزید کہا کہ وہ کسی بھی ایسی تجویز کو قبول نہیں کریں گے جو فلسطینیوں کے حقوق کو نظر انداز کرے۔
نیتن یاہو کا مبینہ بیان
اسرائیلی میڈیا نے رپورٹ کیا کہ وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے غزہ میں یرغمال افراد کے خاندانوں سے ملاقات میں کہا کہ اسرائیل نے اسٹیو وٹکوف کے پیش کردہ منصوبے کو قبول کر لیا ہے۔ تاہم، نیتن یاہو کے دفتر نے اس رپورٹ کی سرکاری طور پر تصدیق نہیں کی، جس سے کچھ غیر یقینی صورتحال پیدا ہوئی۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق، نیتن یاہو پر یرغمالیوں کی رہائی کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے، اور یہ معاہدہ ان کی سیاسی پوزیشن کو مستحکم کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔ وائٹ ہاؤس کی تصدیق نے تاہم اس بات کو تقویت دی کہ اسرائیل اس منصوبے کے لیے تیار ہے۔
غزہ تنازع کا پس منظر
غزہ میں تنازع 7 اکتوبر 2023 کو اس وقت شدت اختیار کر گیا جب حماس کے جنگجوؤں نے جنوبی اسرائیل پر حملہ کیا، جس میں تقریباً 1200 افراد ہلاک اور 251 یرغمالی بنائے گئے۔ جواب میں اسرائیل نے غزہ پر بڑے پیمانے پر فوجی کارروائی شروع کی، جس کے نتیجے میں غزہ کی وزارت صحت کے مطابق 54,000 سے زائد فلسطینی ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہوئے۔ اس جنگ نے غزہ کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا اور انسانی بحران کو جنم دیا۔ اس سے قبل نومبر 2023 میں ایک ہفتے کی جنگ بندی ہوئی تھی، جس میں 100 سے زائد یرغمالیوں اور 240 فلسطینی قیدیوں کا تبادلہ ہوا تھا۔
بین الاقوامی دباؤ اور امریکی کردار
اسرائیل پر عالمی برادری، خاص طور پر یورپی ممالک کی جانب سے جنگ کے خاتمے اور انسانی امداد کی فراہمی کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔ امریکا، جو اسرائیل کا اہم اتحادی ہے، نے قطر اور مصر کے ساتھ مل کر اس جنگ بندی کی ثالثی کی ہے۔ صدر ٹرمپ کی انتظامیہ نے اس معاہدے کو اپنی خارجہ پالیسی کی کامیابی قرار دیا ہے، جبکہ وائٹ ہاؤس کی ترجمان نے کہا کہ ’’ہم امید رکھتے ہیں کہ حماس اس تجویز کو قبول کر لے گا تاکہ غزہ کے عوام کو ریلیف مل سکے۔‘‘ اس معاہدے کی کامیابی کا انحصار حماس کے حتمی فیصلے اور دونوں فریقوں کی شرائط پر عملدرآمد پر ہوگا۔
حماس کی شرائط اور چیلنجز
حماس نے ماضی میں واضح کیا ہے کہ وہ صرف اسی صورت میں یرغمالیوں کو رہا کرے گا جب اسرائیل مستقل جنگ بندی، غزہ سے مکمل فوجی انخلا، اور فلسطینی قیدیوں کی بڑی تعداد کی رہائی پر راضی ہو۔ موجودہ منصوبے میں 60 روز کی عارضی جنگ بندی کی بات کی گئی ہے، جو حماس کی مستقل امن کی شرط سے مطابقت نہیں رکھتی۔ اس کے علاوہ، اسرائیل کی جانب سے حماس کے مکمل خاتمے اور اس کے عسکری ڈھانچے کو ختم کرنے کی شرط بھی مذاکرات میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ ان اختلافات کے باوجود، دونوں فریقوں کے لیے یہ ایک موقع ہے کہ وہ تنازع کو کم کریں۔
سوشل میڈیا پر ردعمل
اس اعلان نے سوشل میڈیا، خاص طور پر ایکس پر، زبردست بحث کو جنم دیا۔ کچھ پاکستانی صارفین نے اسے فلسطینیوں کے لیے ایک ممکنہ ریلیف قرار دیا، جبکہ دیگر نے حماس سے محتاط رویہ اپنانے کی اپیل کی۔ ایک صارف نے لکھا، ’’غزہ کے عوام کو امداد کی فوری ضرورت ہے، لیکن حماس کو کوئی ایسی ڈیل قبول نہیں کرنی چاہیے جو فلسطینیوں کے حقوق کو کمزور کرے۔‘‘ ایک اور پوسٹ میں کہا گیا، ’’امریکا اور اسرائیل کی شرائط پر ہمیشہ شک رہتا ہے، حماس کو اپنے عوام کے مفادات کو ترجیح دینی ہوگی۔‘‘ یہ ردعمل غزہ تنازع پر پاکستانی عوام کی گہری دلچسپی کو ظاہر کرتا ہے۔
امن کی نئی امید
اسرائیل کی جانب سے امریکی جنگ بندی منصوبے پر دستخط اور حماس کی جانب سے اس کا جائزہ غزہ میں 15 ماہ سے جاری تباہ کن جنگ کے خاتمے کی ایک نئی امید پیدا کرتا ہے۔ 60 روز کی جنگ بندی اور انسانی امداد کی فراہمی کا یہ منصوبہ غزہ کے عوام کے لیے فوری ریلیف لا سکتا ہے، لیکن اس کی کامیابی حماس کے فیصلے اور دونوں فریقوں کی شرائط پر عملدرآمد پر منحصر ہے۔ امریکا، قطر، اور مصر کی ثالثی اس تنازع کے حل میں اہم کردار ادا کر رہی ہے، لیکن مستقل امن کے لیے دونوں فریقوں کو لچک اور عزم دکھانا ہوگا۔ عالمی برادری اب اس معاہدے کے نتائج کی منتظر ہے، جو نہ صرف غزہ بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کے استحکام کے لیے اہم ثابت ہو سکتا ہے۔