خلا سے موصول ہونے والے پراسرار سگنلز نے سائنسدانوں کو حیران کر دیا

یہ جسم ہر 44 منٹ بعد دو منٹ تک ریڈیو لہریں اور ایکس ریز خارج کرتا ہے

خلا سے 15 ہزار نوری سال کے فاصلے پر واقع ایک پراسرار فلکی جسم، ASKAP J1832-0911، نے سائنسدانوں کو حیرت میں مبتلا کر دیا ہے۔ یہ جسم ہر 44 منٹ بعد دو منٹ تک ریڈیو لہریں اور ایکس ریز خارج کرتا ہے، جو کہ لانگ-پیریڈ ٹرانسیئنٹ (LPT) نامی نایاب اشیاء کی خصوصیت ہے۔ آسٹریلیا کی ASKAP ٹیلی اسکوپ اور ناسا کی چندرا ایکس رے رصدگاہ نے اسے دریافت کیا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کسی LPT سے ایکس ریز کا اخراج دیکھا گیا، جو نئی قسم کی فلکیات یا طبعیات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ 2022 سے اب تک 15 ایل پی ٹیز دریافت ہو چکے ہیں، لیکن یہ جسم اپنی منفرد خصوصیات کی وجہ سے سائنسی برادری کے لیے ایک معمہ بنا ہوا ہے۔

خلا سے آنے والی پراسرار لہریں

کائنات کی لامتناہی وسعتوں سے آنے والے ایک نایاب اور پراسرار سگنل نے سائنسی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے۔ زمین سے 15 ہزار نوری سال کے فاصلے پر واقع ایک فلکی جسم، ASKAP J1832-0911، ہر 44 منٹ بعد دو منٹ تک ریڈیو لہریں اور ایکس ریز خارج کرتا ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ مظہر نہ صرف غیر معمولی ہے بلکہ اس کی گہرائی میں جھانکنے پر یہ اور بھی راز آلود ہو جاتا ہے، جو کائنات کے بارے میں ہمارے علم کو چیلنج کر رہا ہے۔

ASKAP J1832-0911 کی دریافت

اس فلکی جسم کی شناخت سب سے پہلے آسٹریلیا کی ASKAP (Australian Square Kilometre Array Pathfinder) ریڈیو ٹیلی اسکوپ نے کی، جو خلا کے ایک مخصوص حصے سے آنے والے ان غیر معمولی ریڈیو سگنلز کو پکڑنے میں کامیاب ہوئی۔ اتفاق سے، ناسا کی چندرا ایکس رے رصدگاہ اسی وقت اسی خطے کا جائزہ لے رہی تھی۔ اس مشاہدے نے نہ صرف ریڈیو پلسز بلکہ ایکس ریز کے اخراج کی بھی تصدیق کی، جو اس جسم کو سائنسی تحقیق کا ایک اہم مرکز بنا رہا ہے۔ یہ دریافت کائنات کی گہرائیوں میں چھپے رازوں کو کھولنے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔

لانگ-پیریڈ ٹرانسیئنٹ ایک نیا مظہر

ASKAP J1832-0911 ایک لانگ-پیریڈ ٹرانسیئنٹ (LPT) ہے، جو ایک نایاب قسم کے فلکی اجسام ہیں۔ یہ اجسام منٹوں یا گھنٹوں کے وقفوں سے ریڈیو پلسز خارج کرتے ہیں۔ 2022 میں پہلی بار ایل پی ٹیز کی دریافت کے بعد سے اب تک سائنسدان 15 ایسی اشیاء کا پتہ لگا چکے ہیں۔ تاہم، یہ پہلا موقع ہے کہ کسی ایل پی ٹی سے ایکس ریز کے اخراج کی نشاندہی کی گئی ہے، جو اسے اپنی نوعیت کا منفرد بناتا ہے۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ جسم روایتی فلکیاتی اشیاء سے مختلف ہو سکتا ہے، جو نئے سائنسی نظریات کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔

ایکس ریز اور ریڈیو لہروں کا انوکھا امتزاج

اس فلکی جسم کی سب سے حیران کن خصوصیت اس کا ایکس ریز اور ریڈیو لہروں کو بیک وقت خارج کرنا ہے۔ ایکس ریز عام طور پر انتہائی توانائی والے ماحول، جیسے کہ بلیک ہولز یا نیوٹران ستاروں کے قریب، پیدا ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس، ریڈیو لہریں اکثر پلسرز یا دیگر مقناطیسی میدانوں سے وابستہ ہوتی ہیں۔ ASKAP J1832-0911 کا یہ امتزاج سائنسدانوں کے لیے ایک پہیلی ہے، کیونکہ یہ کسی معروف فلکی جسم کے زمرے میں فٹ نہیں بیٹھتا۔ ماہرین اسے ایک بالکل نئی قسم کی شے یا حتیٰ کہ نئی طبعیات (فزکس) کا پیش خیمہ سمجھ رہے ہیں۔

سائنسی معمہ اور ممکنہ نظریات

محققین کا کہنا ہے کہ ASKAP J1832-0911 کی خصوصیات ایسی ہیں جو اب تک مشاہدہ کیے گئے کسی فلکی جسم سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ ایک غیر معمولی نیوٹران ستارہ یا پلسر ہو سکتا ہے، جو اپنے مضبوط مقناطیسی میدان کی بدولت یہ سگنلز پیدا کرتا ہے۔ دیگر نظریات میں اسے ایک بائنری نظام کا حصہ مانا جا رہا ہے، جہاں دو ستارے ایک دوسرے کے گرد چکر لگاتے ہوئے توانائی خارج کرتے ہیں۔ تاہم، ایکس ریز کا اضافہ اسے اور پیچیدہ بناتا ہے، اور سائنسدان اب مزید مشاہدات کے منتظر ہیں تاکہ اس کی اصل فطرت کو سمجھ سکیں۔

کائنات کے رازوں کی تلاش

ایل پی ٹیز کی دریافت نے کائنات کے بارے میں ہمارے فہم کو وسعت دی ہے، اور ASKAP J1832-0911 اس سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے۔ یہ فلکی جسم ہر 44 منٹ بعد اپنی دو منٹ کی ’پوچھاڑ‘ سے سائنسدانوں کو نئے سوالات کی طرف راغب کر رہا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس قسم کے مظاہر کائنات کے انتہائی حالات، جیسے کہ مضبوط مقناطیسی میدانوں یا زبردست تصادم، کو سمجھنے میں مدد دے سکتے ہیں۔ یہ دریافت نہ صرف فلکیات بلکہ طبعیات کے بنیادی اصولوں کو بھی نئے سرے سے جانچنے کا موقع فراہم کر رہی ہے۔

جدید ٹیکنالوجی کا کردار

اس پراسرار جسم کی دریافت ASKAP ٹیلی اسکوپ اور چندرا ایکس رے رصدگاہ کی جدید ٹیکنالوجی کے بغیر ممکن نہ تھی۔ ASKAP کی اعلیٰ حساسیت نے خلا سے آنے والی کمزور ریڈیو لہروں کو پکڑا، جبکہ چندرا نے ایکس ریز کے ذریعے اس جسم کے توانائی سے بھرپور ماحول کو بے نقاب کیا۔ یہ دونوں آلات مل کر کائنات کے ان رازوں کو کھول رہے ہیں جو کبھی انسانی رسائی سے باہر سمجھے جاتے تھے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ایسی ٹیکنالوجی مستقبل میں مزید حیران کن دریافتوں کی راہ ہموار کرے گی۔

سوشل میڈیا پر جوش و خروش

اس دریافت نے سوشل میڈیا، خاص طور پر ایکس پر، زبردست دلچسپی پیدا کی ہے۔ صارفین نے اسے ’کائنات کا پیغام‘ اور ’نئی سائنس کی شروعات‘ قرار دیا۔ ایک صارف نے لکھا، ’’15 ہزار نوری سال دور سے سگنلز! یہ کائنات ہمیں کیا بتانا چاہتی ہے؟‘‘ ایک اور پوسٹ میں کہا گیا، ’’ASKAP J1832-0911 شاید ہمارے لیے نئی طبعیات کا دروازہ کھولے۔‘‘ یہ ردعمل عوام کی سائنسی دریافتوں میں گہری دلچسپی اور کائنات کے راز جاننے کی خواہش کو ظاہر کرتا ہے۔

کائنات کا ایک نیا باب

ASKAP J1832-0911 سے موصول ہونے والے پراسرار سگنلز نے سائنسدانوں کو ایک نئے فلکیاتی معمے سے روشناس کرایا ہے۔ اس جسم کی ہر 44 منٹ بعد دو منٹ تک ریڈیو لہریں اور ایکس ریز خارج کرنے کی صلاحیت اسے کائنات کی سب سے دلچسپ اشیاء میں سے ایک بناتی ہے۔ یہ نہ صرف لانگ-پیریڈ ٹرانسیئنٹس کے بارے میں ہمارے علم کو بڑھا رہا ہے بلکہ نئی طبعیات کے امکانات کو بھی جنم دے رہا ہے۔ آسٹریلیا کی ASKAP اور ناسا کی چندرا رصدگاہ کی مشترکہ کوششوں نے کائنات کے اس راز کو بے نقاب کیا، جو مستقبل کی دریافتوں کے لیے ایک سنگ میل ثابت ہوگا۔ یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ کائنات ابھی بھی رازوں سے بھری پڑی ہے، اور ہر نئی دریافت ہمیں اس کے قریب لاتی ہے

متعلقہ خبریں

مقبول ترین