پاک بھارت جنگ ہماری مداخلت سے رکی، ورنہ بڑی تباہی طے تھی؛ امریکی صدر

ٹرمپ نے پاکستانی قیادت کی تعریف کی اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو ذاتی دوست قرار دیا

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ پاک-بھارت جنگ ان کی انتظامیہ کی بروقت مداخلت سے رکی، ورنہ یہ تنازعہ جوہری تباہی کا باعث بن سکتا تھا۔ اوول آفس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکہ نے دونوں ممالک کو مذاکرات کی میز پر لا کر عالمی امن کے لیے خطرے کو ٹالا۔

ٹرمپ نے پاکستانی قیادت کی تعریف کی اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو ذاتی دوست قرار دیا۔ انہوں نے امریکی فوج کی طاقت کا ذکر کرتے ہوئے امن کے عزائم پر زور دیا اور اسرائیل-حماس تنازعے، ایران کے جوہری پروگرام، اور چین کے ساتھ تجارتی مذاکرات پر بھی امید کا اظہار کیا۔ تاہم، بھارتی سیکرٹری خارجہ وکرم مسری نے امریکی کردار کو مسترد کرتے ہوئے جنگ بندی کو دونوں ممالک کا دوطرفہ فیصلہ قرار دیا۔

امریکی مداخلت نے تباہی روکی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین حالیہ کشیدگی، جو جوہری جنگ کا پیش خیمہ بن سکتی تھی، ان کی انتظامیہ کی فعال سفارت کاری کی بدولت ختم ہوئی۔ واشنگٹن میں اوول آفس سے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے زور دیا کہ اگر امریکہ نے بروقت مداخلت نہ کی ہوتی تو یہ تنازعہ عالمی امن کے لیے ایک سنگین خطرہ بن جاتا۔ ٹرمپ نے اس کامیابی کو اپنی خارجہ پالیسی کی جیت قرار دیتے ہوئے دونوں ممالک کے رہنماؤں کی دانشمندی کی بھی ستائش کی۔

جوہری جنگ کا خطرہ اور امریکی کردار

ٹرمپ نے اپنے خطاب میں بتایا کہ پاک-بھارت تنازعہ ایک نازک موڑ پر پہنچ چکا تھا، جہاں جوہری تصادم کا خطرہ حقیقت بنتا جا رہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ امریکی قیادت نے فوری طور پر دونوں فریقین سے رابطے قائم کیے اور انہیں مذاکرات کی طرف راغب کیا۔ ٹرمپ کے بقول، ان کی ٹیم نے رات بھر کی طویل بات چیت کے ذریعے جنگ کے بادل چھٹائے، جس سے نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ پوری دنیا کو ایک ممکنہ تباہی سے بچایا گیا۔ یہ اقدام عالمی استحکام کے لیے ایک اہم سنگ میل ہے۔

دونوں ممالک کے رہنماؤں کی ستائش

امریکی صدر نے پاکستانی قیادت کو ’عظیم‘ قرار دیتے ہوئے ان کے تعاون کی تعریف کی اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو اپنا قریبی دوست کہا۔ انہوں نے کہا کہ دونوں رہنماؤں نے جنگ بندی کے فیصلے میں ذمہ داری اور دور اندیشی کا مظاہرہ کیا۔ ٹرمپ نے زور دیا کہ جنگ کے ماحول میں تجارت اور ترقی ممکن نہیں، اور دونوں ممالک کے اس فیصلے نے خطے میں معاشی مواقع کے دروازے کھولے ہیں۔ انہوں نے دونوں فریقین سے براہِ راست رابطوں کو اس کامیابی کا کلیدی عنصر قرار دیا۔

امریکی فوج کی طاقت اور امن کا عزم

اپنی فوجی صلاحیتوں کا حوالہ دیتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ دنیا کی کسی بھی قوم سے زیادہ طاقتور انداز میں لڑ سکتا ہے، کیونکہ اس کے پاس عالمی سطح پر سب سے مضبوط فوج موجود ہے۔ تاہم، انہوں نے واضح کیا کہ ان کی ترجیح جنگ نہیں بلکہ امن کا قیام ہے۔ ٹرمپ نے کہا کہ ان کی انتظامیہ عالمی تنازعات کو حل کرنے کے لیے سفارت کاری کو ترجیح دیتی ہے، اور پاک-بھارت جنگ بندی اس عزم کی ایک واضح مثال ہے۔

عالمی تنازعات پر ٹرمپ کا نقطہ نظر

پاک-بھارت تنازعے کے علاوہ، ٹرمپ نے دیگر عالمی مسائل پر بھی روشنی ڈالی۔ انہوں نے اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری کشیدگی کے خاتمے کی امید ظاہر کی اور کہا کہ ایک ممکنہ جنگ بندی معاہدہ جلد طے پا سکتا ہے۔ اسی طرح، ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق مذاکرات کو مثبت قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکہ ایک جامع سمجھوتے کے قریب ہے۔ ٹرمپ نے چین کے ساتھ تجارتی اختلافات پر بھی بات کی، یہ بتاتے ہوئے کہ چینی صدر سے ملاقات میں ٹیرف اور تجارت کے معاملات حل ہونے کی توقع ہے۔

غیر ملکی طلبا اور ہارورڈ تنازعہ

امریکی صدر نے غیر ملکی طلبا کے حوالے سے بھی اپنا موقف واضح کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہارورڈ یونیورسٹی کے ساتھ جاری قانونی تنازعے کے باوجود غیر ملکی طلبا کو ملک سے نکالنے کا کوئی منصوبہ نہیں۔ ٹرمپ نے زور دیا کہ وہ چاہتے ہیں کہ غیر ملکی نوجوان امریکی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کریں اور ملک کی ترقی میں حصہ ڈالیں۔ یہ بیان امریکی تعلیمی نظام کی عالمی ساکھ کو برقرار رکھنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

بھارت کا امریکی کردار سے انکار

ٹرمپ کے دعوؤں کے برعکس، بھارتی سیکرٹری خارجہ وکرم مسری نے امریکی مداخلت کے کسی بھی کردار کو مسترد کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ دہلی اور اسلام آباد کے درمیان جنگ بندی کا فیصلہ دوطرفہ مذاکرات کا نتیجہ تھا، اور اس میں کسی تیسرے فریق کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ یہ بیان ٹرمپ کے دعوؤں سے متصادم ہے اور پاک-بھارت تنازعے میں امریکی کردار پر بحث کو ہوا دے رہا ہے۔ مسری کا یہ موقف بھارت کی خود مختار خارجہ پالیسی کی عکاسی کرتا ہے۔

ایکس پر عوامی ردعمل

ایکس پر صارفین نے ٹرمپ کے بیانات پر ملے جلے جذبات کا اظہار کیا۔ کچھ پاکستانی صارفین نے امریکی مداخلت کی تعریف کی، جبکہ بھارتی صارفین نے مسری کے بیان کی حمایت کرتے ہوئے امریکی کردار کو مسترد کیا۔ ایک صارف نے لکھا، ’’ٹرمپ کا جنگ بندی کا کریڈٹ لینا سیاسی ڈراما ہے، اصل فیصلہ دونوں ممالک نے خود کیا۔‘‘ ایک اور پوسٹ میں کہا گیا، ’’امریکہ کی ثالثی نے خطے کو بڑی تباہی سے بچایا، ٹرمپ کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے۔‘‘ یہ ردعمل پاک-بھارت تنازعے پر مختلف نقطہ ہائے نظر کو اجاگر کرتا ہے۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین