تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دینے کیلئے بچت اسکیموں اور بینک ڈپازٹ پر ٹیکس 2 فیصد بڑھانے پر غور

فائلرز کے لیے موجودہ 15 فیصد اور نان فائلرز کے لیے 35 فیصد ٹیکس شرح میں اضافہ تجویز کیا گیا ہے

فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی رضامندی سے مالی سال 2025-26 کے بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دینے کے لیے کمرشل بینکوں اور بچت اسکیموں سے حاصل ہونے والی سودی آمدنی پر ٹیکس کی شرح میں 2 فیصد اضافے پر غور کر رہا ہے۔ فائلرز کے لیے موجودہ 15 فیصد اور نان فائلرز کے لیے 35 فیصد ٹیکس شرح میں اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔ ایف بی آر کے سابق ممبر ڈاکٹر محمد اقبال نے خدشہ ظاہر کیا کہ یہ اضافہ سودی آمدنی پر انحصار کرنے والوں اور کمرشل بینکوں کے لیے مشکلات پیدا کر سکتا ہے، کیونکہ ڈپازٹس پہلے ہی ٹیکس شدہ آمدنی سے بنتے ہیں۔ آئی ایم ایف نے خسارے کو پورا کرنے کے لیے متبادل ٹیکس تجاویز طلب کی ہیں، جبکہ پالیسی ریٹ میں کمی سے بینک منافع پہلے ہی متاثر ہے۔ یہ تجویز تنخواہ داروں کو ریلیف دینے کی کوشش ہے، لیکن اس سے غیر فعال آمدنی والوں پر مالی بوجھ بڑھ سکتا ہے۔

ایف بی آر کی نئی حکمت عملی

فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) مالی سال 2025-26 کے بجٹ میں تنخواہ دار طبقے اور دیگر شعبوں کے لیے مالیاتی ریلیف فراہم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس مقصد کے لیے، عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ مشاورت کے بعد، ایف بی آر کمرشل بینکوں اور قومی بچت اسکیموں سے حاصل ہونے والی سودی آمدنی پر ٹیکس کی شرح میں 2 فیصد اضافے پر غور کر رہا ہے۔ یہ اقدام غیر فعال آمدنی (passive income) پر ٹیکس بڑھانے کی حکمت عملی کا حصہ ہے، جس سے تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس بوجھ کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

فائلرز اور نان فائلرز کے لیے نئی شرح

تجویز کے مطابق، فائلرز کے لیے سودی آمدنی پر موجودہ 15 فیصد اور نان فائلرز کے لیے 35 فیصد ٹیکس شرح میں 2 فیصد اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ ایک سینئر عہدیدار نے بتایا کہ یہ اضافہ افراد اور کمپنیوں دونوں کی بینک ڈپازٹس اور بچت اسکیموں سے حاصل ہونے والی آمدنی کو ہدف بنائے گا۔ تاہم، آئی ایم ایف نے اس تجویز کی حتمی منظوری نہیں دی اور تنخواہ داروں کو ریلیف سے پیدا ہونے والے مالی خسارے کو پورا کرنے کے لیے متبادل ٹیکس اقدامات کی تفصیلات مانگی ہیں۔ یہ تجویز گزشتہ سال کے بھاری ٹیکسوں کے بعد ریونیو وصولی میں کمی کے تناظر میں سامنے آئی ہے۔

سودی آمدنی پر ٹیکس کا موجودہ ڈھانچہ

ایف بی آر کے سابق ممبر ٹیکس پالیسی ڈاکٹر محمد اقبال نے وضاحت کی کہ فائلرز کے لیے سودی آمدنی پر 15 فیصد ٹیکس شرح صرف ان افراد پر لاگو ہوتی ہے جن کی سالانہ سودی آمدنی 50 لاکھ روپے تک ہو۔ اگر یہ آمدنی 50 لاکھ سے تجاوز کرتی ہے، تو پوری آمدنی پر عمومی ٹیکس شرح (جو 35 فیصد تک ہو سکتی ہے) عائد ہوتی ہے۔ کمپنیوں کی سودی آمدنی پر 29 فیصد بنیادی ٹیکس کے علاوہ سرچارج اور سپر ٹیکس بھی وصول کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر اقبال نے کہا کہ چونکہ بینک ڈپازٹس پہلے ہی ٹیکس شدہ آمدنی سے بنتے ہیں، اس لیے موجودہ 15 فیصد شرح پہلے ہی کافی زیادہ ہے۔

مالیاتی اثرات اور خدشات

ماہرین نے خبردار کیا کہ سودی آمدنی پر ٹیکس میں اضافہ ان افراد کے لیے مشکلات پیدا کر سکتا ہے جو اپنی جمع پونجی سے حاصل ہونے والے منافع پر انحصار کرتے ہیں، جیسے کہ ریٹائرڈ افراد یا کم آمدنی والے سرمایہ کار۔ ڈاکٹر اقبال نے کہا کہ پالیسی ریٹ میں حالیہ کمی کی وجہ سے بینکوں سے ملنے والا منافع پہلے ہی کم ہو چکا ہے، اور ٹیکس میں اضافہ اس صورتحال کو مزید خراب کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، کمرشل بینکوں کو بھی نقصان کا سامنا ہو سکتا ہے، کیونکہ لوگ اپنے ڈپازٹس کم کر سکتے ہیں، جس سے بینکوں کی لیکویڈیٹی متاثر ہوگی۔

کمرشل بینکوں اور بچت اسکیموں پر اثرات

ایف بی آر کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ غیر فعال آمدنی پر ٹیکس بڑھانے کا مقصد ٹیکس بیس کو وسعت دینا اور تنخواہ دار طبقے پر انحصار کم کرنا ہے۔ تاہم، اس اقدام سے قومی بچت اسکیموں اور کمرشل بینکوں میں سرمایہ کاری کے رجحان پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔ ڈاکٹر اقبال نے سوال اٹھایا کہ جب ڈیویڈنڈ پر ٹیکس شرح 15 فیصد ہے، تو سودی آمدنی پر اضافی ٹیکس عائد کرنا معاشی عدم توازن کیوں پیدا کر رہا ہے؟ انہوں نے کہا کہ یہ پالیسی سرمایہ کاروں کے اعتماد کو متاثر کر سکتی ہے، خاص طور پر جب معاشی حالات پہلے ہی چیلنجنگ ہیں۔

آئی ایم ایف کا کردار اور بجٹ چیلنجز

آئی ایم ایف نے تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دینے کی تجویز پر مثبت ردعمل دیا ہے، لیکن اس کے بدلے متبادل ریونیو ذرائع کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ گزشتہ مالی سال 2024-25 میں بھاری ٹیکس شرحوں کی وجہ سے رسمی شعبوں کا حجم سکڑا، جس سے ٹیکس وصولی ہدف سے کم رہی۔ آئی ایم ایف نے ایف بی آر سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ نئے ٹیکس اقدامات کے ذریعے اس خسارے کو پورا کرنے کی منصوبہ بندی پیش کرے۔ ایف بی آر کے حکام کا کہنا ہے کہ سودی آمدنی پر ٹیکس اضافہ اسی حکمت عملی کا حصہ ہے، لیکن اس کے معاشی اثرات پر گہری نظر رکھنا ہوگی۔

تنخواہ دار طبقے کی امیدیں

تنخواہ دار طبقہ، جو گزشتہ برسوں میں ٹیکس بوجھ کا سب سے بڑا حصہ برداشت کرتا رہا ہے، اس تجویز سے کچھ ریلیف کی امید کر رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق، حکومت انکم ٹیکس سلیبس میں نرمی پر بھی غور کر رہی ہے، جیسے کہ ماہانہ ایک لاکھ روپے آمدنی پر ٹیکس شرح 5 فیصد سے کم کر کے 2.5 فیصد کرنا۔ تاہم، سودی آمدنی پر ٹیکس اضافہ ان لوگوں کے لیے نیا چیلنج بن سکتا ہے جو بچت اسکیموں سے مستحکم آمدنی حاصل کرتے ہیں۔ یہ پالیسی تنخواہ داروں کے لیے ریلیف اور دیگر طبقات پر بوجھ کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش ہے۔

ایکس پر عوامی ردعمل

ایکس پر اس تجویز نے مخلوط ردعمل کو جنم دیا ہے۔ ایک صارف نے لکھا، ’’تنخواہ داروں کو ریلیف دینا اچھا ہے، لیکن بچت اسکیموں پر ٹیکس بڑھانا ریٹائرڈ لوگوں کے لیے ظلم ہے۔‘‘ ایک اور پوسٹ میں کہا گیا، ’’حکومت کو تاجروں اور غیر رسمی شعبوں سے ٹیکس وصول کرنا چاہیے، بجائے اس کے کہ بچت کرنے والوں پر بوجھ ڈالے۔‘‘ کچھ صارفین نے آئی ایم ایف کے کردار پر تنقید کی، جبکہ دیگر نے اسے معاشی استحکام کے لیے ناگزیر قرار دیا۔ یہ ردعمل عوام کے مالیاتی پالیسیوں پر گہرے تحفظات کو ظاہر کرتا ہے۔

ماہرین کی رائے اور خدشات

ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ سودی آمدنی پر ٹیکس اضافہ معیشت کے لیے دو دھاری تلوار ثابت ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر اقبال نے کہا کہ یہ پالیسی بچت کے کلچر کو نقصان پہنچا سکتی ہے، جو پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے ضروری ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ حکومت کو غیر دستاویزی معیشت سے ٹیکس وصولی پر توجہ دینی چاہیے۔ دوسری طرف، کچھ ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ اقدام تنخواہ دار طبقے کے لیے ضروری ریلیف فراہم کر سکتا ہے، بشرطیکہ اسے دیگر اصلاحات کے ساتھ نافذ کیا جائے۔ معاشی توازن برقرار رکھنا اس پالیسی کا سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔

ریلیف اور چیلنجز کا امتزاج

ایف بی آر کی جانب سے بینک ڈپازٹس اور بچت اسکیموں پر سودی آمدنی کے ٹیکس میں 2 فیصد اضافے کی تجویز تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دینے کی ایک اہم کوشش ہے، لیکن یہ غیر فعال آمدنی پر انحصار کرنے والوں کے لیے نئے مالیاتی دباؤ کا باعث بن سکتی ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط اور معاشی خسارے کے دباؤ میں، حکومت کو ٹیکس بیس کو وسعت دینے اور رسمی شعبوں پر انحصار کم کرنے کی ضرورت ہے۔ کمرشل بینکوں اور بچت اسکیموں پر اس پالیسی کے اثرات کو قریب سے مانیٹر کرنا ہوگا تاکہ سرمایہ کاری اور بچت کا رجحان متاثر نہ ہو۔ یہ تجویز معاشی استحکام اور عوامی ریلیف کے درمیان ایک نازک توازن کی عکاسی کرتی ہے، جس کا کامیاب نفاذ پاکستان کی معاشی پالیسیوں کے لیے ایک امتحان ہوگا۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین