’’والدین کی اولاد کا مستقبل برباد کر دینے والی غلطیاں‘‘

کیا کہیں ہم انجانے میں ایسی غلطیاں تو نہیں کر رہے جو ہمارے بچوں کی شخصیت، مستقبل اور جذبات کے بگاڑ کا باعث بن رہی ہیں

’’والدین کی اولاد کا مستقبل برباد کر دینے والی غلطیاں‘‘
خصوصی تحریر: رمیض حسین 

ہر ماں باپ کی یہ شدید خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے زندگی کی دوڑ میں زیادہ سے زیادہ کامیابیاں سمیٹیں اور ایک بہترین شہری کے طور پر سوسائٹی میں جانے پہچانے جائیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف خواہش سے یہ سب کچھ ممکن ہو سکتا ہے؟ کیا کہیں ہم انجانے میں ایسی غلطیاں تو نہیں کر رہے جو ہمارے بچوں کی شخصیت، مستقبل اور جذبات کے بگاڑ کا باعث بن رہی ہیں؟

نادانی سب سے بڑی آزمائش ہے

اکثر والدین اپنی محبت، امید اور خوابوں میں اتنے گم ہو جاتے ہیں کہ انہیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ اولاد کی روحانی جڑوں کو کاٹ رہے ہیں۔ وہ بچوں کے پروں کو کاٹ دیتے ہیں اور پھر حیران ہوتے ہیں کہ’’ہمارا بچہ اُڑ کیوں نہیں پاتا؟‘‘۔
یہ مضمون اُن تمام والدین کے لیے ہے جو نیت کے سچے، محبت میں مخلص ہیں، مگر دانائی اور سمجھ بوجھ کی کمی کا شکار ہیں۔ جو اپنی محبت میں بے خبری کے ساتھ وہ رویے اپنا لیتے ہیں جو بچوں کی شخصیت کو اندر سے کھوکھلا کر دیتے ہیں۔

والدین کی وہ غلطیاں جو بچوں کے لئے زہر قاتل ہیں

بچوں کو کمتر محسوس کرانا
’’تم کچھ نہیں کر سکتے‘‘ جیسے جملے بچوں کے اندر احساسِ کمتری اور بے یقینی کو جنم دیتے ہیں۔ یہ الفاظ ان کے اعتماد کو ختم کر دیتے ہیں۔

ان کی بات نہ سننا
جب ہم ہمیشہ اپنی بات کو حتمی سمجھتے ہیں اور بچوں کو بولنے کا موقع نہیں دیتے، تو وہ دل کی بات چھپانا سیکھ لیتے ہیں۔

خوابوں کو کچل دینا
اگر بچہ مصور بننا چاہتا ہے اور ہم اسے زبردستی ڈاکٹر بنانے پر تُلے ہوتے ہیں، تو ہم اس کی دلچسپیوں اور خوابوں کا گلا گھونٹ رہے ہوتے ہیں۔

موازنہ کرنا
’’دیکھو فلاں کا بچہ کیسا ہے!‘‘ جیسے جملے بچوں کی خودی کو تباہ کر دیتے ہیں۔ ہر بچہ مختلف ہے، اسے اپنی پہچان کا موقع دیں۔

طنز اور مذاق
طنزیہ جملے جیسے ’’واہ، تم تو بہت عقل مند ہو!‘‘ اگرچہ ہنسی میں کہے جاتے ہیں، مگر یہ بچے کے دل پر گہرا زخم چھوڑ سکتے ہیں۔

جذباتی رشتوں میں مداخلت
بچوں کے فیصلوں، دوستوں، اور جیون ساتھیوں پر حد سے زیادہ کنٹرول اکثر ان میں بغاوت یا ذہنی ٹوٹ پھوٹ پیدا کرتا ہے۔

زبردستی تعلیم یا فرائض تھوپنا
اگر بغیر محبت، فہم اور رغبت کے بچوں پر فرائض ڈالے جائیں تو وہ اچھے کاموں سے بھی بددل ہو جاتے ہیں۔

صرف تنقید اور کبھی تعریف نہیں
بچے اپنی خوبیوں سے واقف ہی نہیں ہو پاتے جب ہر وقت صرف ان کی کمزوریوں پر بات کی جائے۔

والدین کے جھگڑے
بچوں کے سامنے جھگڑنے سے ان میں عدم تحفظ پیدا ہوتا ہے۔ نتیجتاً وہ یا تو خاموشی کا شکار ہو جاتے ہیں یا جارح مزاج۔

کم عقلی کا طعنہ دینا
بچوں کی عمر کے مطابق ان سے بات کرنا سیکھیں۔ انہیں ہمیشہ کم عقل سمجھنا ان کی خود اعتمادی کو تباہ کر دیتا ہے۔

جھوٹ بولنا اور سچ کی توقع رکھنا
اگر والدین خود جھوٹ بولیں اور بچوں سے سچ کی امید کریں تو یہ دہرا معیار بچوں کو الجھا دیتا ہے۔

شرمندہ کرنا
’’تمہیں تو بات ہی نہیں کرنی آتی‘‘ جیسے جملے بچوں کے اندر خوف اور شرمندگی پیدا کرتے ہیں۔

جذبات کو نہ سمجھنا
’’یہ بچہ ہے، اسے کیا پتا‘‘ کہہ کر ہم ان کے جذبات کو کمتر سمجھتے ہیں، جو انہیں بے حس بننے پر مجبور کر دیتا ہے۔

اپنے خواب تھوپنا
وہ خواب جو ہم خود پورے نہ کر سکے، بچوں پر ڈال دینا زیادتی ہے۔ انہیں اپنی راہ چُننے دیں۔

صرف نمبر اور عہدے کو کامیابی سمجھنا
کامیابی صرف تعلیمی نمبروں یا نوکری کے عہدوں سے نہیں ہوتی۔ ایک اچھا انسان بننا بھی کامیابی ہے۔

اپنی مرضی سے جینے کی اجازت نہ دینا
بچوں کو آزادی دیں کہ وہ اپنی زندگی خود جئیں، اپنی پسند ناپسند خود طے کریں

دنیا کے خوف سے ڈرانا
’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘ جیسے جملوں سے ہم بچوں میں خوف بھر دیتے ہیں، جبکہ ہمیں ان کے اندر یقین اور اعتماد پیدا کرنا چاہیے۔

جذباتی بلیک میلنگ
’’اگر تم نے یہ کیا تو میری جان نکل جائے گی‘‘ جیسے جملے بچوں کو گناہ کے بوجھ تلے دبا دیتے ہیں۔

بددعا دینا
اولاد کی غلطیوں پر بددعا دینا، دل میں کانٹے کی طرح چبھتا ہے۔ اصلاح کا راستہ دعا اور ہمدردی ہے۔

معافی نہ مانگنا
والدین اگر کبھی غلطی کریں تو معافی مانگنے میں ہچکچاہٹ نہ کریں۔ یہی اصل تربیت اور رشتے کی خوبصورتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: والدین بچوں کی تعلیمی دلچسپی کو نظر انداز نہ کریں

تبدیلی کی پہلی سیڑھی: ادراک اور رجوع

ہم میں سے بیشتر والدین ایسے ہیں جنہوں نے یہ ساری غلطیاں کبھی نہ کبھی کی ہوں گی ، غلطیوں کو ماننا شرمندگی نہیں بلکہ ایک باشعور انسان کی نشانی ہوتی ہے، والدین کو چاہیے کہ آج ہی اپنی روش بدلیں اور اپنے بچوں سے جا کر محبت سے کہیں ’’بیٹا، ہو سکتا ہے ہم نے نادانی میں تم سے کچھ سخت باتیں کی ہوں، کچھ فیصلے کیے ہوں جو تمہیں تکلیف دے گئے ہوں۔ ہم معذرت چاہتے ہیں۔ ہمیں معاف کر دو۔ آج سے ہم تمہیں سننا چاہتے ہیں، تمہارے ہمدرد بننا چاہتے ہیں۔‘‘یہ جملہ ہماری کمزوری نہیں، بلکہ اصل طاقت ہے۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین