بجٹ سڑکوں کے نام۔۔۔تعلیم،پانی، صحت نظر انداز

دیامر بھاشا ڈیم جیسے اہم منصوبے کے فنڈز میں بھی 5 ارب روپے کی کمی کی گئی ہے

تحریر: غلام مرتضی

پاکستان کی حکومت نے اگلے مالی سال کے بجٹ میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے 4,100 ارب روپے مختص کیے ہیں، جو کہ
رواں مالی سال سے 300 ارب روپے زیادہ ہے۔ تاہم، یہ بجٹ بنیادی ضروریات جیسے پانی، تعلیم، اور صحت کے شعبوں کو نظر انداز کرتے ہوئے سڑکوں کی تعمیر اور ارکانِ اسمبلی کی ترقیاتی اسکیموں کو ترجیح دیتا ہے۔ یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب بھارت کی جانب سے انڈس واٹر ٹریٹی (IWT) کی معطلی اور پانی بند کرنے کی دھمکیوں نے پاکستان کے زرعی شعبے کے لیے سنگین خطرات پیدا کر دیے ہیں۔

پانی کے منصوبوں پر کٹوتی ایک خطرناک فیصلہ

حکومت نے پانی کے منصوبوں کے بجٹ میں 45 فیصد کٹوتی کر کے اسے 140 ارب روپے تک محدود کر دیا ہے۔ دیامر بھاشا ڈیم جیسے اہم منصوبے کے فنڈز میں بھی 5 ارب روپے کی کمی کی گئی ہے، جو اب 35 ارب روپے تک محدود ہو گئے ہیں۔ یہ فیصلہ بھارت کی جانب سے انڈس واٹر ٹریٹی کی معطلی کے تناظر میں انتہائی تشویشناک ہے۔ اپریل 2025 میں کشمیر میں ایک دہشت گرد حملے کے بعد بھارت نے IWT معطل کر دیا، جس سے پاکستان کے 80 فیصد زرعی شعبے کو پانی فراہم کرنے والے دریاؤں (انڈس، جہلم، اور چناب) پر اثر پڑ سکتا ہے۔ بھارت نے چناب پر رنبیر کینال کی توسیع اور دیگر ہائیڈرو پاور منصوبوں کو تیز کر دیا ہے، جو پاکستان کے زرعی علاقوں کو پانی کی فراہمی متاثر کر سکتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق، بھارت فی الحال مکمل طور پر پانی روکنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، لیکن خشک موسم میں نئے ڈیموں کی تعمیر سے پاکستان کو شدید پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ (2023) کے مطابق، پاکستان پہلے ہی پانی کی شدید کمی کے حامل ممالک میں شامل ہے، اور موسمیاتی تبدیلیوں نے اس بحران کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ گزشتہ سال بارشوں میں 67 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی، جس نے زرعی پیداوار کو بری طرح متاثر کیا۔

تعلیم اور صحت نظر انداز شدہ شعبے

ترقیاتی بجٹ میں تعلیم اور صحت کے شعبوں کو بھی نظر انداز کیا گیا ہے۔ وفاقی وزارت تعلیم کے بجٹ میں 27 فیصد کمی کے بعد یہ 20 ارب روپے تک محدود ہو گیا ہے، جبکہ ہائیر ایجوکیشن کے بجٹ میں 32 فیصد کٹوتی کے بعد یہ 45 ارب روپے رہ گیا ہے۔ یونیسکو کی ایک رپورٹ (2022) کے مطابق، پاکستان میں 22.8 ملین بچے اسکول سے باہر ہیں، جو کہ دنیا میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔ صحت کے شعبے میں بھی صورتحال ابتر ہے، جہاں فی کس صحت کے اخراجات عالمی اوسط سے بہت کم ہیں (ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن، 2023)۔

اس کے برعکس، ارکانِ اسمبلی کی ترقیاتی اسکیموں کے لیے 50 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، جو سیاسی ترجیحات کو واضح کرتا ہے۔ سڑکوں کی تعمیر کے لیے بھاری رقم مختص کی گئی ہے، حالانکہ واٹر اینڈ پاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (WAPDA) نے خبردار کیا ہے کہ پانی کے منصوبوں کی کمیابی سے زرعی پیداوار اور توانائی کے شعبے پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

انڈس واٹر ٹریٹی ایک نازک تنازع

انڈس واٹر ٹریٹی 1960 میں ورلڈ بینک کی ثالثی سے طے پائی تھی، جس کے تحت انڈس، جہلم، اور چناب کے پانی پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا تھا۔ تاہم، بھارت کی جانب سے حالیہ معطلی نے اس معاہدے کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ بھارت نے اس معطلی کو قومی سلامتی سے جوڑتے ہوئے پاکستان پر سرحد پار دہشت گردی کے الزامات عائد کیے، جنہیں پاکستان نے مسترد کر دیا۔ پاکستان نے اسے غیر قانونی قرار دیتے ہوئے عالمی عدالتوں میں قانونی چارہ جوئی کا عندیہ دیا ہے۔

 رپورٹ  کے مطابق، بھارت نے ماضی میں بھی IWT کے تحت اپنے حصے کے پانی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی دھمکی دی تھی۔ حالیہ معطلی اس تنازع کی شدت کو ظاہر کرتی ہے۔ عالمی ماہرین کا کہنا ہے کہ IWT کو جدید تقاضوں، جیسے موسمیاتی تبدیلی اور آبادی کے دباؤ، کے مطابق اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔

زراعت اور معیشت پر اثرات

پاکستان کی معیشت کا 25 فیصد حصہ زراعت پر منحصر ہے، اور انڈس بیسن 80 فیصد زرعی زمینوں کو سیراب کرتا ہے۔ پانی کی کمی سے گندم، چاول، اور گنے جیسی فصلوں کی پیداوار متاثر ہو سکتی ہے، جس سے خوراک کی قیمتیں بڑھ سکتی ہیں۔ ایگریکلچرل رپورٹ (2024) کے مطابق، پانی کی کمی سے پنجاب کے زرعی علاقوں میں پیداوار میں 20 فیصد تک کمی کا امکان ہے۔ بھارت کی جانب سے پانی کے بہاؤ سے متعلق ڈیٹا شیئر نہ کرنے سے سیلاب اور خشک سالی کی پیش گوئی بھی مشکل ہو جائے گی۔

مستقبل کے امکانات

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اپنی واٹر مینجمنٹ پالیسی کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ واٹر ایڈ (2023) کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان کو پانی کے ذخائر بڑھانے کے لیے نئے ڈیموں کی تعمیر، واٹر ری سائیکلنگ، اور ایگریکلچرل ایفیشنسی بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ دیامر بھاشا ڈیم جیسے منصوبوں کی فنڈنگ میں کمی اس سمت میں ایک منفی اقدام ہے۔

دوسری جانب، سفارتی کوششوں سے بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازع کو حل کیا جا سکتا ہے۔ مئی 2025 میں فوجی سطح پر رابطوں اور عالمی دباؤ سے جنگ سے گریز کیا گیا، لیکن تعلقات اب بھی نازک ہیں۔ پاکستان کو عالمی عدالتوں اور ورلڈ بینک سے رجوع کر کے IWT کو بحال کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

حکومت کی جانب سے ترقیاتی بجٹ میں پانی، تعلیم، اور صحت جیسے اہم شعبوں کو نظر انداز کرنا ایک غیر دانشمندانہ فیصلہ ہے۔ بھارت کی دھمکیوں اور موسمیاتی تبدیلیوں کے تناظر میں پانی کے منصوبوں کو ترجیح دینا ناگزیر ہے۔ ارکانِ اسمبلی کی ترقیاتی اسکیموں اور سڑکوں کی تعمیر کے لیے بھاری فنڈز مختص کرنے کے بجائے، حکومت کو زراعت، تعلیم، اور صحت پر سرمایہ کاری کرنی چاہیے تاکہ ملکی معیشت اور عوام کی فلاح کو یقینی بنایا جا سکے۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین