خصوصی تحریر: عطا المصطفی (اسلامک سکالر)
عرفات مکہ مکرمہ سے تقریباً ساڑھے پندرہ میل کے فاصلے پر پہاڑوں کی جھرمٹ میں ایک وسیع میدان ہے، جسے عرفات کہا جاتاہے۔ بنیادی طور پر عرفہ مناسک حج کا اہم ترین رکن ہے۔9 ذی الحجۃ کے دن کو یومِ عرفہ کہا جاتا ہے، جس کے بغیر حج نامکمل ہے۔سب سے پہلے ہم اس کی وجہ تسمیہ کو جانتے ہیں کہ ا س کو عرفہ کیوں کہا جاتا ہے ؟ اس حوالے سے کئی اقوال ہیں جو اس کی اہمیت و فضیلت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
حضرت آدم اور حضرت حوا کو جب اللہ تعالی نے جنت سے دنیا میں بھیجا۔ تو جس مقام پر آپ دونوں کی ملاقات ہوئی۔ وہ یہ جگہ تھی ۔ جس کی وجہ سے اس کا نام عرفہ پڑ گیا اور اللہ تعالی نے اپنے مقبول اور برگزیدہ بندوں کی یاد کو زندہ رکھنے کیلئے اسے امت محمدیہ پر تا قیامت فرض کر دیا ۔
اسی طرح حضرت ابراہیم کو آٹھ ذی الحجہ کی رات خواب میں نظر آیا کہ وہ اپنے بیٹے کوذبح کر رہے ہیں، آپ کافی پریشان تھے کہ آیا یہ خواب بحکم الہی ہے یا نہیں ، پھر ۹ ذی الحجہ کو دوبارہ آپ نے یہی خواب دیکھا کہ آپ حضرت اسماعیل کو ذبح کر رہے ہیں تو آپ کو یقین ہوگیا۔ چوں کہ حضرت ابراہیم کویہ معرفت اور یقین ۹ ذی الحجہ کو حاصل ہوا تھا، اسی وجہ سے ۹ ذی الحجہ کو ’یومِ عرفہ‘ کہتے ہیں۔
ایک اور قول یہ ہےکہ جب حضرت جبرایل حضرت ابراہیم کو مناسک حج کے احکام سکھا رہے تھے تو ان سے پوچھا "عرفتَ” تو آپ نے جواب میں کہا "عرفتُ” تو اس مناسبت سے اس کا نام عرفہ پڑ گیا ۔
حج کے تین فرائض ہیں ۔ پہلا حالت احرام میں نیت کر کے تلبیہ پڑھنا ۔دوسرا وقوفِ عرفہ او ر تسیراطواف زیارت کرنا۔
وقوفِ عرفہ کا شرعی حکم : 9 ذی الحجۃ کو ظہر کے بعد سے لے کر 10 ذی الحجہ کی طلوعِ فجر تک میدانِ عرفات میں ٹھہرنا، البتہ اس کا شرعی حکم نویں ذوالحجہ کو نمازِ ظہر سے لے کر نمازِ مغرب سے پہلے پہلے تک ہے۔یہ حج کا رکنِ اعظم ہے، اگر کسی نے وقوفِ عرفہ نہ کیا، اور اس مقررہ اوقات میں عرفات میں داخل نہ ہوا تو اس کا حج ہی نہیں ہوگا، چاہے دم( جانور کی قربانی) ہی کیوں نہ دے دے۔
طواف زیارت: یعنی خانہ کعبہ کے ساتھ چکر لگانا ۔ اگر کوئی شخص طواف زیارت میں تاخیر کرتا تو اس کا حج مکمل نہ ہوگانہ ہی اس کی بیوی اس پر حلال ہوگی ۔10 ذو الحجہ کے سورج طلوع ہونے سے لے کر 12 ذو الحجہ کے غروب آفتا ب تک اگر کسی نے بغیر شرعی عذر کے طواف زیارت ادا نہ کیا تو دم(جانور کی قربانی ) لاز م ہوگی۔ اور یہی اس کا مقررہ وقت ہے۔
قرآن اور سنت رسول میں ذی الحجہ کے پہلے دس ایام اور خاص کر یومِ عرفہ کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے۔
9ذو الحجۃ کا دن اس اعتبارسے بھی نہایت مبارک ہے کہ اس میں حج کا سب سے بڑا رکن ”وقوف عرفہ“ ادا ہوتا ہے، اور اس دن بے شمار لوگوں کی بخشش اور مغفرت کی جاتی ہے۔
وقوف عرفہ حج کا سب سے عظیم رکن ہے، یہاں تک کہ اس رکن کو ہی نبی اکرمﷺنے حج قرار دیا ، جس کے بغیر حج مکمل نہیں ، فرمایا :’’الحج عرفۃ‘‘ کہ حج وقوف عرفہ کا نام ہے۔ یہی وہ دن ہے جس میں دین اسلام کے مکمل ہونے کا اعلان کیا گیا ۔ "حضرت عمر بن خطاب رضی الله عنه سے روایت ہے: ایک یہودی نے اُن سے کہا: اے امیر المومنین! آپ اپنی کتاب میں ایک ایسی آیت پڑھتے ہیں کہ اگر وہ آیت ہم گروہِ یہود پر اُترتی تو ہم اس کے یومِ نزول کو عید کا دن بنا لیتے۔ آپ رضی الله عنه نے پوچھا: کون سی آیت؟ اُس نے کہا: ﴿اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمْ الْاِسْلَامَ دِيْنًا﴾ ‘آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو (بہ طورِ) دین (یعنی مکمل نظامِ حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا‘۔ حضرت عمر رضی الله عنه نے فرمایا: جس دن اور جس جگہ یہ آیت حضور نبی اکرم ﷺ پر نازل ہوئی ہم اس کو پہچانتے ہیں۔ آپ ﷺ اُس وقت جمعہ کے دن عرفات کے مقام پر کھڑے تھے۔
حضرت (عبد الله) بن عباس رضی الله عنهما نے فرمایا: بے شک یہ آیت دو عیدوں یعنی جمعہ اور عرفہ کے دن نازل ہوئی ہے۔(ترمذی)
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یوم عرفہ یوم النحر اور ایام تشریق ہم اہل اسلام کی عید ہے، اور یہ کھانے پینے کے دن ہیں“۔(سنن ابی داود)
حضرت جابر رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: الله تعالیٰ کے نزدیک یومِ عرفہ سے بڑھ کر کوئی دن بھی فضیلت والا نہیں ہے۔ اس دن الله تعالیٰ آسمانِ دنیا پر نزولِ اجلال فرماتا ہے اور اہلِ زمین کے ساتھ اہلِ آسمان پر فخر کرتا ہے۔ وہ فرماتا ہے: میرے ان بندوں کی طرف دیکھو جو بکھرے بالوں کے ساتھ، گرد و غبار سے اٹے ہوئے، دھوپ کی تمازت سہتے دور دراز کے راستوں سے آئے ہیں۔ وہ میری رحمت کی امید رکھتے ہیں اور انہوں نے میرے عذاب کو نہیں دیکھا۔ یومِ عرفہ سے زیادہ کسی اور دن لوگوں کو جہنم سے آزادی نہیں ہوتی۔)ابن حبان (
الغرض وقوف عرفہ کی فرضیت کی وجہ سے عرفہ کادن بہت ہی اہمیت کا حامل ہے ۔جیسا کہ سورۃ الفجر میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
والفجر ولیالِ عشر
”اور دس مبارک (ذی الحجۃ کی) راتوں کی قسم “
بعض علماء لکھتے ہیں اس سے مراد رمضان المبارک کی آخری دس راتیں ہیں اور بعض علماء ذی الحجۃ کی پہلی دس راتوں کے قائل ہیں۔ ان دونوں عشروں کی افضلیت کے متعلق کتاب و سنت میں متعدد دلائل ملتے ہیں۔اس بارے میں امام ابنِ تیمیہ کا فتوی بڑا ممدو معاون ہے۔
علامہ ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ ذوالحجہ کے ابتدائی دس دن رمضان کے آخری دس دنوں سے افضل ہیں اور رمضان کے آخری عشرہ کی راتیں ذوالحجہ کی دس راتوں سے افضل ہیں۔حافظ ابن قیم (شاگرد علامہ ابن تیمیہ) بیان کرتے ہیں کہ جب کوئی صاحب فہم و ادراک اور سمجھدار شخص اس پر غوروخوض کرے گا تو وہ اسے شافی و کافی پائے گا کیونکہ ذوالحجہ کے پہلے عشرہ کے اعمال اللہ تعالی کو باقی ایام سے زیادہ محبوب نہیں اس لئے کہ ان ایام میں یومِ عرفہ، یوم نحر اور یوم ترویہ بھی ہیں(جو خاص فضیلت کے حامل ہیں مزیدیہ کہ ارکان خمسہ کے فرائض ِ حج میں اہم رکن ہے جس کے کرنے سے فریضہ حج مکمل ہوتا ہے ) اور رمضان کی آخری دس راتیں شب بیداری کی راتیں ہیں جن میں رسول اللہﷺرات بھر عبادت کیا کرتے تھے اور ان راتوں میں شبِ قدر بھی۔چنانچہ جو شخص اس تفصیل کے بغیر جواب دے گا اس کےلئے ممکن نہیں کہ وہ صحیح دلیل پیش کر سکے۔(مجموعہ فتاوی ابن تیمیہ:25/287)
9 ذی الحجۃ کے دن روزہ کی اہمیت:
حضرت عائشہ رضی الله عنها بیان کرتی ہیں کہ رسول الله ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ یوم عرفہ کا روزہ ہزار دن کے روزوں کی طرح ہے۔(طبرانی)
حضرت قتادہ بن نعمان رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: جو شخص یومِ عرفہ کا روزہ رکھتا ہے اس کے پچھلے سال کے اور آنے والے سال کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔(ابن ماجہ، نسائی)
حضرت سہل بن سعد رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: جو شخص یوم عرفہ کا روزہ رکھتا ہے اس کے مسلسل دو سالوں کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔(طبرانی)
شیٰطین کی رسوائی کا دن
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ایسا کوئی دن نہیں، جس میں شیطان اتنا زیادہ ذلیل و خوار، حقیر اور غیظ سے پُر دیکھا گیا ہو جتنا وہ عرفہ کے دن ہوتا ہے، جب کہ وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل ہوتی ہوئی رحمت اور اس کی طرف سے بڑے بڑے گناہوں کی معافی دیکھتا ہے۔
حضرت (عبد الله) بن عمر رضی الله عنهما سے مروی ہے کہ اُنہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: عرفہ کے دن کوئی ایک بھی شخص ایسا نہیں بچتا جس کے دل میں ذرہ بھر ایمان ہو، مگر یہ کہ الله تعالیٰ اس کی مغفرت فرما دیتا ہے۔ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول الله! کیا یہ خوش خبری صرف اہلِ عرفہ کے لیے ہے یا سارے لوگوں کے لیے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: بلکہ عامۃ الناس کے لیے۔ ( امام عسقلانی)
لہذا 9 ذی الحجۃ کو عرفات میں ٹھہرنا، خشیت الہی اور خالص نیت سے ذکر، لبیک، دعا ، درود و سلام، استغفار میں مشغول رہنا، نماز ظہر و عصر ادا کرنا اور نماز سے فراغت کے بعد بالخصوص غروب آفتاب تک دعا میں اپنا وقت گزارنا تاکہ اللہ رب العزت کا قرب نصیب ہو۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ اور مقبول بندوں کے اس ملاپ کی یاد تا ابد زندہ و جاوید رکھنے کیلئے اور حضرت ابراہیم ؑ کی اس عظیم قربانی اور یقین کامل اور استقامت کے اس عظیم جذبے کو ہر سال 9 ذی الحجہ کو حج کیلئے آنے والے نفوس کی اس میدان میں حاضری کو مناسک حج کی بنیاد قرار دے دیا۔