نو دنوں تک دنیا کو چونکا دینے والا معمہ بالآخر سلجھ گیا

یہ دریافت زمین کے ماحولیاتی اور ارضیاتی نظاموں کے پیچیدہ تعلق کو اجاگر کرتی ہے

5 جون 2025 کو سائنسدانوں نے ستمبر 2023 میں نو دنوں تک ہر 90 سیکنڈ میں زمین کے ہلکے جھٹکوں کے معمے کو حل کر لیا۔ یہ جھٹکے مشرقی گرین لینڈ کے ڈکسن فیورڈ میں دو بڑی لینڈ سلائیڈنگز سے پیدا ہونے والی میگا-سونامیوں کی وجہ سے تھے، جو پگھلتے گلیشیئرز کے ٹوٹنے سے شروع ہوئیں۔ 2024 میں شائع دوچہ تحقیق نے اسے ثابت کیا، جبکہ یونیورسٹی آف آکسفورڈ کے سائنسدان ٹھامس موناہن کی ٹیم نے ناسا کے SWOT سیٹلائیٹ ڈیٹا سے لہروں کی درست پیمائش کی۔ جرنل نیچر کمیونیکیشنز میں شائع یہ مطالعہ موسمیاتی تبدیلیوں سے بڑھتی لینڈ سلائیڈنگز کے خطرات کو اجاگر کرتا ہے

میگا-سونامی کی دریافت
تقریباً ایک سال کی گہرائی سے تحقیق کے بعد، 2024 میں دو سائنسی مطالعوں نے اس راز سے پردہ اٹھایا۔ یہ جھٹکے مشرقی گرین لینڈ کے ڈکسن فیورڈ میں دو بڑی لینڈ سلائیڈنگز سے پیدا ہونے والی میگا-سونامیوں کی وجہ سے تھے۔ فیورڈ، جو سمندر کی تنگ اور گہری شاخ ہے، نے ان لہروں کو پھنسا کر ارضی ارتعاش پیدا کیا۔ یہ دریافت زمین کے ماحولیاتی اور ارضیاتی نظاموں کے پیچیدہ تعلق کو اجاگر کرتی ہے۔

گلیشیئرز کا پگھلنا اور لینڈ سلائیڈنگ
یونیورسٹی آف آکسفورڈ کے سائنس فیلو ٹھامس موناہن نے بتایا کہ یہ میگا-سونامیاں پگھلتے گلیشیئرز کے ٹوٹنے سے شروع ہوئیں۔ گلیشیئر کے گرنے سے بڑے پیمانے پر لینڈ سلائیڈنگ ہوئی، جو فیورڈ کے پانی سے ٹکرائی اور 200 میٹر بلند لہریں پیدا کیں۔ یہ لہریں فیورڈ کی تنگ ساخت میں پھنس کر مسلسل ارتعاش کا باعث بنیں، جو عالمی سیسمومیٹرز پر جھٹکوں کے طور پر ریکارڈ ہوئے۔

ناسا کے سیٹلائیٹ کا کردار
ٹھامس موناہن کی ٹیم نے ناسا کے سرفیس واٹر اینڈ اوشین ٹوپوگرافی (SWOT) سیٹلائیٹ سے حاصل ڈیٹا کا استعمال کیا، جو دسمبر 2022 میں پانی کی سطح کی پیمائش کے لیے لانچ کیا گیا تھا۔ اس ڈیٹا نے فیورڈ میں لہروں کی ڈھلان اور سطح کی تبدیلیوں کی انتہائی درست تصاویر فراہم کیں۔ یہ اعلیٰ ریزولوشن مشاہدات نے لہروں کو غیر معمولی ارضی حرکات سے جوڑنے میں کلیدی کردار ادا کیا، جو سائنسی تحقیق میں ایک اہم پیش رفت ہے۔

نیچر کمیونیکیشنز میں اشاعت
اس تحقیق کو جرنل نیچر کمیونیکیشنز میں شائع کیا گیا، جہاں ٹھامس اور ان کی ٹیم نے سیٹلائیٹ کے پہلے براہ راست مشاہدات پیش کیے۔ انہوں نے ثابت کیا کہ فیورڈ میں پانی کے شدید ارتعاش نے زمین کی سطح پر جھٹکوں کو جنم دیا۔ تاہم، ٹھامس نے تسلیم کیا کہ ابتدائی نظریات میں کچھ بے ضابطگیاں تھیں، جنہیں سیٹلائیٹ ڈیٹا نے واضح کیا۔ یہ مطالعہ سائنسی برادری کے لیے ایک نئی راہ کھولتا ہے۔

موسمیاتی تبدیلیوں کا اثر
ماہرین نے خبردار کیا کہ اس طرح کی لینڈ سلائیڈنگز موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث زیادہ عام ہو رہی ہیں۔ عالمی درجہ حرارت میں اضافے سے گرین لینڈ کے گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں، جو پہاڑوں کی برف کو غیر مستحکم کر رہے ہیں۔ نتیجتاً، لینڈ سلائیڈنگ اور سونامی جیسے واقعات کا خطرہ بڑھ رہا ہے، جو عالمی سطح پر ارضیاتی سرگرمیوں کو متاثر کر سکتے ہیں۔ یہ واقعہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے گہرے اثرات کی ایک واضح مثال ہے۔

عالمی تعاون کی کامیابی
اس معمے کو حل کرنے میں 15 ممالک کے 70 سائنسدانوں نے حصہ لیا، جنہوں نے مشترکہ طور پر اسے ایک منفرد ارضیاتی واقعہ قرار دیا۔ انہوں نے اسے "سونامی سے چلنے والی ارتعاشی لہر” کا نام دیا، جو فیورڈ کی منفرد ساخت کی وجہ سے ممکن ہوئی۔ یہ بین الاقوامی تعاون سائنسی تحقیق کی طاقت کو ظاہر کرتا ہے، جو پیچیدہ ماحولیاتی رازوں کو کھولنے میں کامیاب رہا۔

ایکس پر ردعمل
ایکس پر صارفین نے اس دریافت کو سائنسی کامیابی قرار دیا۔ ایک صارف نے لکھا، "نو دنوں تک زمین کے جھٹکوں کا راز کھلنا حیرت انگیز ہے!” دوسرے نے گلیشیئرز کے پگھلنے پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا، "موسمیاتی تبدیلی ہمارے سیارے کو بدل رہی ہے۔” کچھ نے اسے دیگر ممالک کے لیے ایک انتباہ قرار دیا کہ گلیشیئرز کے تحفظ کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔

مستقبل کے خطرات
یہ تحقیق موسمیاتی تبدیلیوں سے جڑے مستقبل کے خطرات کو اجاگر کرتی ہے۔ گرین لینڈ جیسے علاقوں میں گلیشیئرز کا پگھلنا نہ صرف سونامی اور لینڈ سلائیڈنگ کا باعث بن رہا ہے بلکہ عالمی سطح کے ارضیاتی واقعات کو بھی متحرک کر سکتا ہے۔ ماہرین نے خبردار کیا کہ اگر عالمی درجہ حرارت کو کنٹرول نہ کیا گیا تو ایسی غیر معمولی سرگرمیاں بڑھ سکتی ہیں، جو ساحلی علاقوں کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہیں۔

سائنس کی فتح
نو دنوں تک زمین کو ہلانے والے جھٹکوں کا معمہ حل کرنا سائنسی تحقیق کی ایک عظیم کامیابی ہے۔ ناسا کے SWOT سیٹلائیٹ، بین الاقوامی تعاون، اور ٹھامس موناہن کی ٹیم کی کاوشوں نے اسے ممکن بنایا۔ یہ واقعہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو سمجھنے اور گلیشیئرز کے تحفظ کی فوری ضرورت پر زور دیتا ہے۔ ایکس پر عوامی جوش سے واضح ہے کہ یہ دریافت نہ صرف سائنسی بلکہ ماحولیاتی بیداری کے لیے بھی ایک اہم سنگِ میل ہے۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین