اہرام مصر کے نیچے ایک اور پوشیدہ شہر کا انکشاف

اس دریافت نے سائنسی حلقوں میں نئی بحث کو جنم دیا ہے

مصر کے تاریخی جیزا اہرامات کے نیچے ایک اور زیر زمین شہر کی دریافت کا دعویٰ سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے کیا ہے، جو اس سے قبل خفرع اہرام کے نیچے ایک وسیع زیر زمین ڈھانچے کی نشاندہی کر چکی تھی۔ یہ نیا انکشاف مینکور اہرام کے نیچے کیا گیا، جو جیزا کے تین مرکزی اہرامات میں سب سے چھوٹا ہے۔ اگر اس دریافت کی تصدیق ہو جاتی ہے تو یہ قدیم مصری تہذیب کے بارے میں ہمارے موجودہ علم کو یکسر تبدیل کر سکتی ہے۔

مینکور اہرام کے نیچے ستونوں کی دریافت

اطالوی اور سکاٹش محققین کی ٹیم نے دعویٰ کیا ہے کہ مینکور اہرام کے نیچے خفرع اہرام کی طرح کے ہی زیر زمین ستون دریافت ہوئے ہیں۔ یہ ڈھانچے مبینہ طور پر اہرامات کو سطح سے تقریباً دو ہزار فٹ کی گہرائی میں موجود ایک پیچیدہ زیر زمین نظام سے جوڑتے ہیں۔ اس دریافت نے سائنسی حلقوں میں نئی بحث کو جنم دیا ہے، کیونکہ یہ اہرامات کے روایتی مقبراتی کردار سے ہٹ کر ان کے ممکنہ وسیع تر مقصد کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

خفرع اہرام کی دریافت کے بعد تنقید کا سامنا

اس سے قبل مارچ 2025 میں، اسی ٹیم نے خفرع اہرام کے نیچے ایک وسیع زیر زمین شہر کی موجودگی کا دعویٰ کیا تھا، جسے سائنسی برادری کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ معروف ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر زاہی حواس نے اسے "مکمل طور پر غلط” قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس دعوے کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں ہے۔ انہوں نے اسے قدیم مصری تہذیب کو بدنام کرنے کی کوشش قرار دیا۔ تاہم، تنقید کے باوجود ٹیم نے اپنی تحقیق جاری رکھی اور اب مینکور اہرام کے نیچے بھی اسی طرح کے ڈھانچوں کی نشاندہی کی ہے۔

جدید ریڈار ٹیکنالوجی کا کردار

اس تحقیق میں سکاٹ لینڈ کی یونیورسٹی آف اسٹارتھکلائیڈ کے ریڈار ماہر فلیپو بیونڈی اور اطالوی یونیورسٹی آف پیزا کے پروفیسر کوراڈو مالنگا شامل ہیں۔ انہوں نے جدید Synthetic Aperture Radar (SAR) ٹیکنالوجی کا استعمال کیا، جو سیٹلائٹ سے زمین کے اندر تک ہائی ریزولوشن تصاویر بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس ٹیکنالوجی نے بغیر کھدائی کے زیر زمین ڈھانچوں کی موجودگی کو ظاہر کیا، جس سے اہرامات کے نیچے ایک پیچیدہ نظام کی نشاندہی ہوئی۔

مینکور اہرام کے نیچے ستونوں کی مماثلت

فلیپو بیونڈی نے بتایا کہ مینکور اہرام کے نیچے دریافت شدہ ستون خفرع اہرام کے نیچے پائے گئے ڈھانچوں سے حیرت انگیز طور پر مماثل ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ 90 فیصد امکان ہے کہ یہ ستون وہی خصوصیات رکھتے ہیں جو خفرع کے نیچے دیکھے گئے ہیں۔ یہ مماثلت اس نظریے کو تقویت دیتی ہے کہ جیزا کے تینوں اہرامات ایک وسیع زیر زمین نیٹ ورک کا حصہ ہیں، جو ممکنہ طور پر قدیم مصری تہذیب کے کسی نامعلوم مقصد کے لیے بنایا گیا تھا۔

ایک بڑے انفراسٹرکچر کا حصہ

محققین کا ماننا ہے کہ جیزا اہرامات ایک بہت بڑے زیر زمین انفراسٹرکچر کا صرف ایک ظاہری حصہ ہیں۔ ان کے مطابق، یہ اہرامات نہ صرف مقبروں کے طور پر بنائے گئے بلکہ ایک پیچیدہ زیر زمین نظام سے جڑے ہوئے ہیں، جس میں ستون، راستے، اور ممکنہ طور پر واٹر سسٹم شامل ہیں۔ اس دریافت سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا اہرامات کا اصل مقصد وہ نہیں تھا جو روایتی طور پر سمجھا جاتا ہے۔

سائنسی برادری کی تنقید اور شکوک

اس دعوے نے سائنسی حلقوں میں ایک بار پھر تنازع کو جنم دیا ہے۔ ماہر آثار قدیمہ زاہی حواس نے اسے "جھوٹی خبر” قرار دیتے ہوئے کہا کہ استعمال شدہ ریڈار ٹیکنالوجی سائنسی طور پر تصدیق شدہ نہیں ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ خفرع اہرام کی بنیاد براہ راست چٹان سے تراشی گئی تھی، اور اس کے نیچے کوئی ستون یا بڑے ڈھانچے موجود نہیں ہیں۔ پروفیسر لارنس کونیئرز نے بھی اس ٹیکنالوجی کی گہرائی تک رسائی کی صلاحیت پر سوال اٹھایا، لیکن وہ چھوٹے ڈھانچوں کی موجودگی کو ممکن سمجھتے ہیں۔

 کھدائی اور مزید تحقیق

خفرع پروجیکٹ کی ٹیم نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی تحقیق کو جاری رکھے گی اور مستقبل میں کھدائی کے ذریعے ان ڈھانچوں کی تصدیق کرنے کی کوشش کرے گی۔ تاہم، مصری حکام کی طرف سے ایسی کھدائی کی اجازت ملنا ایک بڑا چیلنج ہے، کیونکہ وہ تاریخی مقامات پر تحقیق کے حوالے سے سخت پالیسی رکھتے ہیں۔ اگر یہ دعوے درست ثابت ہوتے ہیں، تو یہ قدیم مصری تہذیب کے بارے میں نئی معلومات فراہم کر سکتے ہیں، بشمول اس امکان کے کہ یہ اہرامات کسی بڑے انفراسٹرکچر کا حصہ تھے۔

تاریخ کے نئے راز کھلنے کے امکانات

جیزا اہرامات کے نیچے ایک اور خفیہ شہر کی دریافت کا دعویٰ سائنسی اور عوامی حلقوں میں ایک سنسنی خیز موضوع بن گیا ہے۔ اگرچہ اس دعوے کو سائنسی برادری کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا ہے، لیکن محققین پرامید ہیں کہ ان کی دریافت تاریخ کے نئے راز کھول سکتی ہے۔ یہ انکشافات اہرامات کے روایتی مقصد پر سوال اٹھاتے ہیں اور یہ تجویز کرتے ہیں کہ قدیم مصری تہذیب شاید ہمارے تصور سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ تھی۔ تاہم، حتمی نتائج کے لیے مزید سائنسی تصدیق اور کھدائی کی ضرورت ہے، جو اس راز کو کھولنے کی کلید ثابت ہو سکتی ہے۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین