منہ کا کینسر، جسے طبی ماہرین "خاموش قاتل” کہتے ہیں، جنوبی ایشیا—خاص طور پر پاکستان، بھارت، اور بنگلہ دیش—میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ یہ مہلک بیماری اپنی غیر واضح علامات اور تیز رفتار پھیلاؤ کی وجہ سے خاموشی سے جان لیوا بن جاتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق، منہ کا کینسر دنیا بھر میں سب سے زیادہ پھیلنے والے کینسروں میں سے ایک ہے، اور پاکستان میں اس کے کیسز میں تشویشناک اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ اس کی دیر سے تشخیص اور علاج کی پیچیدگی اسے ایک سنگین چیلنج بناتی ہے۔
خاموش علامات
منہ کے کینسر کی ابتدائی علامات اکثر اتنی معمولی ہوتی ہیں کہ مریض انہیں عام زخم یا انفیکشن سمجھ کر نظرانداز کر دیتے ہیں۔ زبان یا مسوڑھوں پر ہلکا درد، معمولی خراش، یا چھوٹی سی سوجن اس کی شروعات ہو سکتی ہے۔ یہ زخم کئی ہفتوں تک ٹھیک نہیں ہوتے، لیکن لوگ عموماً اسے سنجیدہ نہیں لیتے۔ ماہرین کے مطابق، یہ غیر واضح علامات ہی اس بیماری کو "خاموش قاتل” بناتی ہیں، کیونکہ جب تک مریض ڈاکٹر کے پاس پہنچتا ہے، مرض خطرناک حد تک بڑھ چکا ہوتا ہے۔
علاج کی راہ میں رکاوٹ
منہ کے کینسر کی تشخیص اکثر تاخیر سے ہوتی ہے، جو اس کے مہلک ہونے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ جب تک مرض کی شناخت ہوتی ہے، یہ عام طور پر تیسرے یا چوتھے مرحلے تک جا پہنچتا ہے۔ اس مرحلے پر علاج نہ صرف مہنگا اور تکلیف دہ ہوتا ہے بلکہ کامیابی کے امکانات بھی کم ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں صحت کے بنیادی ڈھانچے کی کمی اور آگاہی کے فقدان کی وجہ سے مریض وقت پر ڈاکٹر تک نہیں پہنچ پاتے۔ نتیجتاً، پانچ سال بعد بقا کی شرح صرف 40 سے 50 فیصد رہ جاتی ہے۔
جسم کے دیگر حصوں تک خطرہ
منہ کا کینسر اپنی تیزی سے پھیلنے کی صلاحیت کی وجہ سے انتہائی خطرناک ہے۔ یہ مرض منہ سے شروع ہو کر گردن، جبڑے، حلق، اور حتیٰ کہ پھیپھڑوں تک پھیل سکتا ہے۔ اس کا میٹاسٹیسیس (پھیلاؤ) جسم کے دیگر اعضاء کو شدید نقصان پہنچاتا ہے، جس سے علاج کی پیچیدگیاں بڑھ جاتی ہیں۔ ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ اگر ابتدائی مراحل میں اس کا پتہ نہ چلے تو یہ کینسر جسم کے اہم نظاموں کو تباہ کر سکتا ہے، جس سے موت کا خطرہ کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔
تمباکو اور پان کا کردار
منہ کے کینسر کی سب سے بڑی وجہ پان، گٹکا، چھالیا، اور تمباکو کی دیگر مصنوعات ہیں۔ یہ مادے منہ کی جھلیوں کو مسلسل نقصان پہنچاتے ہیں، جو وقت کے ساتھ کینسر کا باعث بنتا ہے۔ سگریٹ، حقہ، اور دیگر تمباکو کی اشیاء بھی اس مرض کے خطرے کو بڑھاتی ہیں۔ الکحل کا استعمال، خاص طور پر تمباکو کے ساتھ مل کر، کینسر کے امکانات کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔ پاکستان میں پان اور گٹکے کا وسیع استعمال اس بیماری کے پھیلاؤ کی ایک بڑی وجہ ہے، جو نوجوانوں اور بڑوں دونوں میں عام ہے۔
صفائی اور وائرس
منہ کی ناقص صفائی، دائمی زخم، یا مسلسل جلن بھی منہ کے کینسر کا خطرہ بڑھاتی ہے۔ دانتوں کی خرابی یا دائمی انفیکشنز منہ کی جھلیوں کو کمزور کرتے ہیں، جو کینسر کے لیے راہ ہموار کرتی ہے۔ اس کے علاوہ، ہیومن پیپیلوما وائرس (HPV)، جو جنسی طور پر منتقل ہوتا ہے، منہ اور گلے کے کینسر سے منسلک ہے۔ HPV سے وابستہ کینسر کے کیسز پاکستان میں بڑھ رہے ہیں، خاص طور پر شہری علاقوں میں، جہاں آگاہی کی کمی اسے مزید خطرناک بناتی ہے۔
انتباہی نشانیاں
منہ کے کینسر کی علامات کو بروقت شناخت کرنا زندگی بچانے کے لیے ضروری ہے۔ ان میں منہ یا زبان پر ہفتوں تک نہ بھرنے والے زخم، چبانے یا نگلنے میں دشواری، منہ میں سفید یا سرخ دھبے، مسلسل خون بہنا، اور جبڑے یا گال میں سوجن شامل ہیں۔ کچھ مریضوں کو گلے میں مستقل خراش یا آواز میں تبدیلی کا بھی سامنا ہوتا ہے۔ ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ اگر یہ علامات دو ہفتوں سے زیادہ رہیں تو فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کیا جائے۔
آگاہی اور احتیاط
منہ کے کینسر سے بچاؤ کے لیے تمباکو اور اس کی تمام مصنوعات سے مکمل پرہیز ضروری ہے۔ پان، گٹکا، اور چھالیا کے استعمال کو ترک کرنا اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ منہ کی باقاعدہ صفائی، دانتوں کی دیکھ بھال، اور صحت مند غذا بھی خطرے کو کم کرتی ہے۔ الکحل کے استعمال سے گریز اور HPV ویکسینیشن کینسر کی روک تھام میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ ماہرین عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ ہر چھ ماہ بعد دانتوں کے ڈاکٹر سے چیک اپ کروائیں تاکہ کسی غیر معمولی علامت کا بروقت پتہ چل سکے۔
علاج کے چیلنجز
منہ کے کینسر کا علاج اس کے مرحلے پر منحصر ہے۔ ابتدائی مراحل میں سرجری یا ریڈی ایشن تھراپی موثر ہوتی ہے، لیکن جدید مراحل میں کیموتھراپی اور سرجری کے امتزاج کی ضرورت پڑتی ہے۔ پاکستان میں علاج کی لاگت اور سہولیات کی کمی مریضوں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ شہری علاقوں میں کینسر ہسپتال موجود ہیں، لیکن دیہی علاقوں میں مریضوں کو بروقت علاج تک رسائی نہیں ملتی۔ اس کے علاوہ، علاج کے دوران مریضوں کو شدید تکلیف اور مالی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
عوامی آگاہی کی ضرورت
ماہرین کا کہنا ہے کہ منہ کے کینسر سے بچاؤ کے لیے عوامی آگاہی ناگزیر ہے۔ پاکستان میں تمباکو اور پان کے استعمال کو سماجی طور پر قبول کیا جاتا ہے، جو اس بیماری کے پھیلاؤ کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اسکولوں، کالجوں، اور کمیونٹیز میں مہمات کے ذریعے لوگوں کو اس مرض کے خطرات سے آگاہ کیا جانا چاہیے۔ میڈیا، خاص طور پر سوشل میڈیا، اس پیغام کو پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔ حکومت کو تمباکو کی مصنوعات پر ٹیکس بڑھانے اور ان کی فروخت پر سخت پابندیاں لگانے کی ضرورت ہے۔
ایک قابلِ علاج مرض
منہ کا کینسر اپنی خاموشی اور تیزی سے پھیلنے کی صلاحیت کی وجہ سے خطرناک ہے، لیکن بروقت تشخیص اور احتیاط سے اس سے بچا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں اس مرض کے بڑھتے ہوئے کیسز ایک الارم ہیں کہ ہمیں اپنی عادات اور طرز زندگی کو بدلنا ہوگا۔ تمباکو سے مکمل دوری، منہ کی صفائی، اور باقاعدہ چیک اپ اس خاموش قاتل کو شکست دینے کے لیے کافی ہیں۔ عوام، میڈیا، اور حکومت کے مشترکہ کردار سے ہم اس مرض کی شرح کو کم کر سکتے ہیں اور ایک صحت مند معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔