17جون 2025ء ہے۔ آج سے 11 برس قبل ماڈل ٹائون لاہور میں پاکستان کی تاریخ کا ایک نہایت ہی المناک سانحہ رونما ہوا جسے دنیا سانحہ ماڈل ٹاؤن کے نام سے یاد رکھتی ہے۔
14 افراد کی شہادت
ماڈل ٹائون میں 14 افراد کو سیدھی گولیاں مار کر شہید کیا گیا اور 90 کے قریب افراد کے جسموں کو گولیوں سے چھلنی کیا گیا جن میں خواتین بھی شامل ہیں۔ بیشتر زخمی عمر بھر کے لئے معذور ہو گئے اور کچھ انہی زخموں کے ساتھ علاج کرواتے اور انصاف مانگتے مانگتے اللہ کو پیارے ہو گئے۔ میڈیا کے کیمروں کے سامنے مسلسل 12 گھنٹے 100 سے زیادہ افراد پر گولیاں چلانا، لاشیں گرانا ملکی تاریخ کا ایک ایساواقعہ ہے جس کی دوسری کوئی مثال نہیں ملتی
نانصافی کے 11 سال
سانحہ ماڈل ٹائون کو 11 سال کا طویل عرصہ بیت گیا مگر آج قاتلوں کو سزا ملنا تو دور کی بات ان کی شناخت بھی نہیں ہونے دی جارہی۔ شہدائے ماڈل ٹائون کے ورثاء مسلسل قانونی چارہ جوئی کررہے ہیں مگر 11 سال گزر جانے کے بعد بھی انصاف کے عمل میں کوئی پیش نہیں ہوئی۔ سانحہ ماڈل ٹائون کیس کی سٹڈی کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ طاقتوروں کے ہاتھ سے معصوم اور بے گناہ شہریوں کا خون بہنا کتنا آسان ہے اور مظلوموں کے لیے طاقتوروں کے ہوتے ہوئے انصاف لینا کتنا مشکل ہے ۔
قانونی پس منظر
سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تفصیلات بے شمار ہیں مگر میں اس وقت اُن میں سے صرف ایک گوشہ آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں اور وہ ہےسانحہ ماڈل ٹاؤن کی تفتیش۔ 5 دسمبر 2018 ء کے دن میں بذات خود سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کے روبرو پیش ہوا، اس لارجر بنچ کی سربراہی اس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ کر رہے تھے، میں نے گزارش کی کہ حکومت نے جو جے آئی ٹی بنائی اُس کی ساری تفتیش یکطرفہ ہے،اس جے آئی ٹی میں نہ تو چشم دید گواہان کو بلایا گیا اور نہ زخمیوں کو بلایا گیا اور نہ ہی دیگر قانونی تقاضے پورے کئے گئے اور یکطرفہ چالان عدالت کو بھجوا دیا گیا۔ ہم نے درخواست کی کم از کم چشم دید گواہان اور زخمیوں کے بیانات تو قلمبند کئے جائیں ،ہماری یہ درخواست قبول کی گئی اور سپریم کورٹ کے لارجر بنچ نے سانحہ ماڈل ٹائون کی غیر جانبدارانہ تفتیش کے لئے جے آئی ٹی قائم کرنے کا حکم دیا۔ سپریم کورٹ کے اس حکم کی روشنی میں 3 جنوری2019 ءکو جے آئی ٹی تشکیل پائی جس کے سربراہ اے ڈی خواجہ بنے، اس جے آئی ٹی میں پولیس اور پاکستان کے ریاستی اور حکومتی، تفتیشی اور تحقیقاتی اداروں کے اعلیٰ افسران بھی شامل تھے۔
281 افراد کے بیانات قلمبند
اے ڈی خواجہ کی سربراہی میں قائم جے آئی ٹی نے 3 ماہ کے اندر 281 افراد کے بیانات قلم بند کیے، جن میں اُس وقت کے وزیر اعظم کا بیان بھی شامل تھا اور آج کے وزیر اعظم کا بیان بھی شامل تھا، جو آج وزیراعظم ہیں 17 جون 2014ء کے دن جب یہ سانحہ ہوا تو وہ اُس وقت پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے، جے آئی ٹی نے ان کے علاوہ اُن تمام وزارء ، پولیس اور سول اداروں کے افسران کے بیانات بھی قلمبند کئے جن کے خلاف سانحہ ماڈل ٹائون کی ایف آئی آر درج تھی۔دونوں طرف سے جتنے بھی متعلقہ افراد تھے سب کے بیانات قلمبند ہوئے۔
لاہور ہائیکورٹ کی طرف سے سٹے آرڈر
جے آئی ٹی نے اپنی تفتیش تقریباً مکمل کر لی تھی اور وہ چالان انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کرنے کی تیاری میں تھی کہ یکا یک ایک ہیڈ کانسٹیبل جو خود بھی سانحہ کا ملزم بھی تھا اُس نے لاہور ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی کہ جے آئی ٹی غیر قانونی ہے، اس ہیڈ کانسٹیبل کی درخواست پر فوراً فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ کے حکم پر بننے والی جے آئی ٹی کو لاہور ہائیکورٹ نے کام کرنے سے روک دیا بلکہ اس جےآئی ٹی کا نوٹیفکیشن ہی معطل کر دیا۔ یہ بات حیران کن تھی کہ سپریم کورٹ کے حکم پر بننے والی جے آئی ٹی کو لاہور ہائیکورٹ کام کرنے سے کیسے روک سکتی تھی؟ لیکن ایسا ہوا۔
سپریم کورٹ سے باردگر رجوع
لاہور ہائیکورٹ کے سٹے آرڈر دینے کے خلاف ہم باردگر سپریم کورٹ میں گئے اور اُنہیں بتایا کہ 14 لاشیں گری ہیں، ہم صرف غیر جانبدار تفتیش چاہتے ہیں تاکہ پتہ چلے کس نے کس کے حکم پر بے گناہ شہریوں کو قتل کیا مگر ان حقائق سے پردہ اٹھانے کے لئے قائم کی گئی جے آئی ٹی کو کام کرنے سے روک دیا گیا۔ ہم یہ درخواست سپریم کورٹ میں لے کر گئے کہ جےآئی ٹی کو کام کرنے سے کیوں روکا گیا؟ہماری اِس درخواست کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے ہمدردی کے ساتھ سنا اور 3رکنی بنچ نے 13 فروری 2020ء کو نیا آرڈر جاری کیا کہ اس کیس میں 3 ماہ کے اندر ترجیحاً فیصلہ کیا جائے ۔
انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار
آج 17 جون 2025ءسپریم کورٹ کے اس فیصلے کو 6سال اور سٹے آرڈر کو 5سال گزر گئے ہیں مگر جے آئی ٹی کو چالان پیش نہیں کرنے دیاجارہا اور اسے کام کرنے سے روک رکھا ہے۔ یہ جے آئی ٹی ہم نے نہیں بنائی نہ ہی اس جے آئی ٹی کے اندر ہمارے لوگ شامل ہیں، اس کے باوجود اسے کام نہیں کرنے دیا جارہا، ہم صرف غیر جانبدار تفتیش اور انصاف مانگ رہے ہیں کہ ہمیں بتایا جائے کہ 14 شہریوں کو کس جرم کی پاداش میں کس نے قتل کیا؟ یہ سب ہم قانونی طریقہ کار کے تحت چاہتے ہیں مگر انصاف کا عمل شروع ہی نہیں ہونے دیا جارہا۔
5 مرتبہ بینچ ٹوٹا
صرف جے آئی ٹی کے مسئلہ پر لاہور ہائی کوٹ میں ہم نے 56 پیشیاں بھگتیں ،جے آئی ٹی کے سٹے آرڈر کی سماعت کرنے والا بنچ اب تک 5 مرتبہ ٹوٹ چکا ہے۔ نہ جانے یہ کوئی قیامت کا کیس ہے کہ کسی کنارے ہی نہیں لگ رہا۔ 2022ء میں جے آئی ٹی کی قانونی حیثیت کے مسئلہ پر دونوں طرف کے وکلاء نے اپنے اپنے دلائل مکمل کر لئے، فیصلہ سنایا جانا تھا لیکن اب تک تاریخ ہی نہیں مل رہی۔ مظلوموں اور شہیدوں کو ،زخمی کارکنوں کو، اُن کے وارثوں کو انصاف تک رسائی کا راستہ بھی نہیں دیا جارہا ،یہ بھی پتہ نہیں چلنے دیا جا رہا کہ قتل کس نے کیا ۔
مقتدر حلقوں سے گزارش
مقتدر طبقات سے کہنا چاہتا ہوں کہ موت کا ایک دن مقرر ہے سب نے اللہ کےحضور پیش ہونا ہے، ناانصافی اور قتل ناحق کا جواب قبر کی پہلی شام ہی دینا پڑے گا، اس عدالت میں پھر کوئی اگر مگر نہیں چلے گی۔ہم چاہتے ہیں لاہور ہائیکورٹ جے آئی ٹی کے کیس میں اپنا فیصلہ سنائے تاکہ ہم پھر آگے اپیل میں جا سکیں ۔ سٹے آرڈر کے ذریعے انصاف کا راستہ رکا ہوا ہے۔ہم نے اپنے ضمیر اپنے ایمان اور مظلوم شہید کارکنوں کے ساتھ ایفائے عہد نبھانا ہے، ان کے انصاف کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ اس سے ہم کبھی پیچھے نہیں ہٹ سکتے، ہمیں علم ہے انصاف عدالتوں نے دینا ہے اور ہم عدالتوں سے ہی انصاف مانگ رہے ہیں، عدالتوں نے جو فیصلہ بھی کرنا ہے کریں تاکہ یہ معاملہ آگے بڑھے اور کیس اپنے منطقی انجام کو پہنچے۔
روز حساب
ہمارا تو ایمان ہے اگر یہاں عدل نہ ملا تو قیامت کے دن ضرور ملے گا۔میں ارباب اقتدار سے کہتا ہوں کہ خدا کے لئے انصاف تک رسائی کا مظلوموں کو، شہیدوں کی اولادوں کو، اُن کے وارثوں کو، زخمیوں کو راستہ دیں تاکہ اُنہیں علم ہو سکے کہ ان کا قاتل کون ہے۔ قانون اور انصاف کو اتنا کمزور نہ کر دیا جائے کہ مظلوم کی آنکھوں میں صرف آنسو رہ جائیں۔ یہاں کہا جاتا ہے انصاف اور قانون کی عدالت میں سب برابر ہیں کیا ایسے برابری ہوتی ہے کہ ایک فریق کو غیر جانبدار تفتیش کا حق بھی نہ مل سکے؟ اور دوسرا دندناتا پھرے۔ اگر کمزور کو انصاف نہیں دینا تو پھر کم از کم یہ دعوے تو نہ کئے جائیں کہ انصاف اور قانون کی عدالت میں سب برابر ہیں۔
دوسرا سانحہ
پاکستان کی کوئی عدالت ،کسی وکیل ، کسی پولیس افسر ،کسی سرکاری عہدیدار نے سانحہ ماڈل ٹائون کے وجود سے انکار نہیں کیا، یہ خونی مناظر ہر آنکھ نے دیکھے، مقتولین کے پوسٹ مارٹم ہوئے، اُن کے جنازے پڑھے گئے، اُن کی قبریں موجود ہیں، پوسٹ مارٹم رپورٹس انسداد دہشت گردی عدالت لاہور میں پڑی ہیں، دونوں طرف کے وکلاء مقتولین کے حوالے سے قانونی بحث کرتے ہیں ، مقتولین کے وکلاء بھی اس بات سے انکاری نہیں ہیں کہ سانحہ ماڈل ٹائون نہیں ہوایا اس سانحہ میں خواتین کو شہید نہیں کیا گیا ، یا لوگ زخمی نہیں ہوئے۔ اس کے باوجود شہداء کے ورثاء انصاف سے محروم ہیں جو بذات خود دوسرا بڑا سانحہ ہے۔