پاکستان پر حملہ غلط تجزیہ کی نظیر

سفارتی سطح پر ہندوستان کی پیش قدمی کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ کئی نمائندہ وفد کسی بھی بڑے لیڈر تک سے ملاقات نہیں کر سکے۔

پہلگام حملے کے بعد ہندوستان نے فوراً اس کی ذمہ داری پاکستان پر ڈال دی اور سندھ آبی معاہدہ کو معطل کر دیا۔ پاکستانی سفیروں کو ہٹا دیا اور پاکستانی مسافروں کا ویزا منسوخ کر دیا۔ مودی حکومت نے ان اقدام کو دہشت مخالف اور بہادرانہ اصول پر عمل درآمد کی شکل میں پیش کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ ایک نئے طرح کے اسٹریٹجک عزم کی مثال ہے۔ لیکن ہندوستان نے جو قدم اپنےعزم اور طاقت کو دکھانے کے لیے اٹھایا تھا، وہ بڑی اسٹریٹجک اور سفارتی شکست میں تبدیل ہو چکا ہے۔

7 مئی کو کنٹرول لائن کے اس پار ہندوستان کے ہوائی حملے طاقت کو ظاہر کرتے ہوئے پیغام دینے کے لیے کیے گئے تھے کہ پاکستان کی طرف سے دہشت گرد نیٹورک کے ذریعہ ’پراکسی وار‘ کو اب مزید برداشت نہیں کیا جائے گا، اور اگر ایسا ہوا تو اسے سختی کے ساتھ بزور طاقت کچلا جائے گا۔ نئی دہلی کی کارروائی کے فوراً بعد پاکستان نے زوردار اور جدید اسلحوں سے جوابی حملہ کیا۔ جنگ کے پہلے چند گھنٹے کے اندر ہی ہندوستان کو مبینہ طور پر کئی جنگی طیاروں کا نقصان اٹھانا پڑا، جن میں غالباً چوتھی نسل کا رافیل بھی شامل تھا۔ مبینہ ملبہ کو پاکستانی میڈیا میں دکھایا بھی گیا۔

حالات کو مزید بدتر بنا دیا ہندوستانی فوج کے بے حد نقصان دہ قبول نامہ نے۔ سنگاپور میں شانگری-لا ڈائیلاگ کے دوران بلومبرگ ٹی وی کو دیے انٹرویو میں چیف آف ڈیفنس اسٹاف نے اعتراف کیا کہ پاکستان کے جوابی حملوں کے بعد ہندوستانی فضائیہ تقریباً 2 دنوں تک زمین پر ہی رہی۔ فضائی طاقت کی نااہلیت کے اس غیر معمولی اعتراف نے ہندوستان کی طاقت اور کنٹرول کے ماحول کو سنگین طور سے کمزور کر دیا۔ پھر جنگ بندی ہوئی، جو دو فریقی بحران مینجمنٹ چینلوں کے ذریعہ نہ ہو کر امریکی مداخلت سے ہوتی ہے۔ 10 مئی کو امریکی صدر ٹرمپ نے اعلان کیا کہ ہندوستان اور پاکستان جنگ روکنے پر راضی ہو گئے ہیں اور اسی کے ساتھ انھوں نے ممکنہ نیوکلیائی ٹکراؤ کو روکنے کا سہرا امریکی سفارت کاری کو دیا۔ ٹرمپ انتظامیہ نے جنگ بندی کو اس طرح ظاہر کیا جس سے یہ نظریہ مضبوط ہوتا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان دونوں ہی نیوکلیائی طاقتوں کو غیر مستحکم کر رہے ہیں اور اس کے لیے باہری نگرانی ضروری ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر خارجہ ایس جئے شنکر ٹرمپ کے بار بار کیے جا رہے اس دعویٰ، کہ ان کی ثالثی نے نیوکلیائی جنگ کو ٹال دیا، کو خارج کرنا تو دور، اسے ٹھوس چیلنج بھی نہ دے سکے۔ جو بھی ہو، ٹرمپ کا یہ تبصرہ پاکستان کو سکون دینے والا تھا۔ چونکہ ہندوستان کی طرف سے کوئی تردید نہیں ہوئی، جلد ہی یہ بات پھیل گئی کہ مودی حکومت نے ایک سپر پاور ثالچ کو اپنی اسٹریٹجک خود مختاری سونپ دی، ایک ایسا نظریہ جس نے نہ صرف ہندوستانی اسٹریٹجک نظریہ سازوں کو پریشان کیا، بلکہ اسلام آباد کے سول ملٹری اشرافیہ طبقہ کو حوصلہ بخشا۔

ماحول میں یہ زبردست الٹ پھیر ہندوستان کے لیے اس سے برے وقت میں نہیں آ سکتا تھا۔ پاکستان کو روکنے یا اپنی سالمیت قائم کرنے سے بالکل برعکس مودی نے جو فوجی جوا کھیلا، اس سے انجانے میں ہی پاکستان کوغیرمعمولی سیاسی فائدہ ہو گیا۔ اس الٹ پھیر کا سب سے زیادہ فائدہ جسے ہوا، وہ کوئی اور نہیں پاکستان ہی ہے۔

حالانکہ ہندوستان کی ناکام فوجی کارروائی نے عاصم منیر فلیڈ مارشل چیف اٖ ارمی سٹاف سمیت پاکستان کو خطے میں فائدہ ہوا ، بلکہ پاکستان خاصہ مضبوط بھی ہوگیا ناقابل تسخیر بھی ہوگیا۔۔
ہندوستان کو بیانیہ کے معاملے میں شدید شکست کھانی پڑی۔ جہاں بین الاقوامی طبقہ نے شروع میں پہلگام حملے کے متاثرین کے تئیں ہمدردی ظاہر کی تھی، اس کا دھیان جلد ہی دہشت گردی سے ہٹ کر جنگ مینجمنٹ اور نیوکلیائی استحکام پر مرکوز ہو گیا۔ مودی کے جارحانہ اشاروں، اسٹریٹجک ڈپلومیسی کی مستقل مزاجی کے عدم موجودگی نے جنگ کو تیز ہونے کے اندیشوں کو بڑھا دیا ہے۔ ایک بار جب ٹرمپ نے عوامی طور سے جنگ بندی کا اعلان کر دیا، تو ہندوستان کو دہشت گردی کا متاثر نہیں بلکہ اُکساوے اور بدلہ کے غیر مستحکم علاقائی چکر میں یکساں شراکت دار کی شکل میں دیکھا جانے لگا۔ اسٹریٹجک موقع کو سمجھتے ہوئے پاکستان نے ہندوستان کی غیر فعال ڈپلومیسی کا فائدہ اٹھایا۔ چین کی مضبوط حمایت حاصل کر پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے ہائی پروفائل ڈپلومیسی حملہ شروع کیا جس میں کشمیر ایشو کو ماحولیاتی گراوٹ، پانی کا حق اور علاقائی مساوات جیسے وسیع فکروں سے جوڑ دیا گیا۔ دوشنبہ میں گلیشیر تحفظ پر بین الاقوامی اجلاس میں انھوں نے دلیل پیش کی کہ ہندوستان کا سندھو آبی معاہدہ کو معطل کرنا دونوں ممالک کے مشترکہ وسائل کا خطرناک اوزار کی طرح استعمال کرنا ہے۔

شہبازشریف کی ترکیہ، آذربائیجان اور تاجکستان کا سفر ڈپلومیسی پیش قدمی کو ظاہر کرتا ہے۔ لاچن سہ فریقی اعلیٰ سطحی اجلاس میں کشمیر ایشو کو ناگورنو-کرباخ اور شمالی سائپرس جیسے پرانے ایشوز کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔ ترکیہ اور آذربائیجان نے پاکستان کے ’متوازن‘ رد عمل کی کھلی حمایت کی اور دفاعی تعاون بڑھانے کا عزم ظاہر کیا۔ ایران نے علامتی طور سے پاکستان کی حمایت کی اور ہندوستان کی جارحیت کی مذمت کی، جبکہ ہندوستان کی ڈپلومیسی کوشش الجھاؤ اور بے اثر رہی ہے۔ وزارت خارجہ نے جلدبازی میں 59 لیڈران کے پارلیمانی نمائندہ وفود کو 30 سے زائد ممالک کے لیے روانہ کیا۔ اسے برسراقتدار طبقہ اور اپوزیشن کی یکجہتی کی علامت کی شکل میں پیش کیا گیا، جبکہ وفود میں شامل لیڈران کے نام پر اپوزیشن پارٹیوں سے بات تک نہیں کی گئی۔ اس کے علاوہ یہ نمائندہ وفود کہیں بھی کسی سینئر افسر سے ملنے میں ناکامیاب رہے۔ کئی پارٹیاں جونیئر سفیروں، مہاجر گروپوں یا تھنک ٹینکوں کے ساتھ ہی بات چیت کر پائے۔ ششی تھرور کی قیادت میں امریکہ کیا مشہور وفد کسی سینئر سینیٹر سے نہیں مل سکا۔ یہ واشنگٹن میں ہندوستان کی گھٹتی طاقت کا مظہر ہے۔

ہندوستان میں مودی نے دکھاوے کا سہارا لیا۔ عوامی خطاب، روڈ شو اور جارحانہ سوشل میڈیا مہم دیکھنے کو ملی۔ پھر بھی یہ علامتی قدم کسی بھی ٹھوس ڈپلومیٹک کامیابی یا بامعنی فوجی ڈیٹرنس حاصل نہ ہونے کی بات نہیں چھپا سکے۔ ڈرامائی نیشنلزم اور اسٹریٹجک ہم آہنگی کے درمیان کا فرق پہلے کبھی اتنا واضح نہیں تھا۔

مودی کا حقیقت سے زیادہ دکھاوے پر انحصار، دور اندیشی سے زیادہ طاقت اور اسٹریٹجک اتحاد سے زیادہ تنہا کام کرنے کی روش نے ہندوستان کے طویل مدتی مفادات کو کمزور کیا ہے۔ جب تک ہندوستان سبق نہیں سیکھتا، ہر سرحد پر حملہ ڈیٹرنس نہیں بلکہ اسٹریٹجک شرمندگی اور عالمی سطح پر الگ تھلگ پڑنے کا مزید ایک چکر شروع کرے گا۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین