بچپن میں فوڈ پوائزننگ بعد کی زندگی میں آنتوں کے کینسر کا باعث بن سکتی ہے

اس عمر میں آنتوں کے خلیے زیادہ حساس ہوتے ہیں

فوڈ پوائزننگ کو عموماً ایک عارضی تکلیف سمجھا جاتا ہے، لیکن ایک تازہ سائنسی تحقیق نے اس کے ممکنہ طویل مدتی اثرات کو اجاگر کر کے سب کو چونکا دیا ہے۔ تحقیق کے مطابق، بچپن میں ای کولی (E. coli) بیکٹیریا سے ہونے والی فوڈ پوائزننگ بعد کی زندگی میں آنتوں کے کینسر کا خطرہ بڑھا سکتی ہے۔ یہ انکشاف خاص طور پر اس لیے تشویشناک ہے کہ اس کا اثر دہائیوں بعد، حتیٰ کہ 70 سال کی عمر میں بھی ظاہر ہو سکتا ہے۔ یہ رپورٹ اس تحقیق کی تفصیلات، اس کے صحت عامہ پر اثرات، اور احتیاطی تدابیر پر روشنی ڈالتی ہے، جو والدین اور معاشرے کے لیے ایک اہم پیغام ہے۔

ایک نیا سائنسی انکشاف

ایک حالیہ سائنسی مطالعے نے ظاہر کیا ہے کہ ای کولی بیکٹیریا کی کچھ اقسام، جو کولابیکٹن (colibactin) نامی زہریلا مادہ پیدا کرتی ہیں، آنتوں کے خلیوں کے ڈی این اے میں ایسی تبدیلیاں پیدا کر سکتی ہیں جو کینسر کا پیش خیمہ بنتی ہیں۔ یہ تبدیلیاں خاص طور پر بچپن کی ابتدائی دہائی، یعنی زندگی کے پہلے 10 سالوں، میں زیادہ نمایاں ہوتی ہیں، کیونکہ اس عمر میں آنتوں کے خلیے زیادہ حساس ہوتے ہیں۔

محققین نے پایا کہ کولابیکٹن سے ہونے والی ڈی این اے تبدیلیاں آنتوں کے کینسر کے ابتدائی مراحل سے مشابہت رکھتی ہیں۔ یہ تبدیلیاں فوری طور پر علامات ظاہر نہیں کرتیں، لیکن یہ جینیاتی نقصان دہائیوں تک جسم میں موجود رہتا ہے اور بعد کی زندگی میں، حتیٰ کہ 40 سال سے کم عمر یا 70 سال کی عمر میں، کینسر کی شکل میں سامنے آ سکتا ہے۔ یہ دریافت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ بچپن میں ہونے والی فوڈ پوائزننگ کے اثرات نہ صرف فوری بلکہ طویل مدتی بھی ہو سکتے ہیں۔

دیگر جراثیم بھی خطرناک

تحقیق نے یہ بھی واضح کیا کہ نہ صرف ای کولی بلکہ دیگر جراثیمی انفیکشنز، جیسے کہ کلوسٹریڈیوائیڈز ڈفیسائل (Clostridioides difficile)، بھی آنتوں کے کینسر کے خطرے کو بڑھا سکتے ہیں۔ یہ بیکٹیریا، جو فوڈ پوائزننگ کی ایک اور عام وجہ ہے، آنتوں میں سوزش (inflammation) کا باعث بنتا ہے۔ یہ سوزش طویل عرصے تک برقرار رہنے پر آنتوں کے خلیوں کو نقصان پہنچاتی ہے، جو کینسر کے خطرے کو بڑھاتی ہے۔

ماہرین نے بتایا کہ یہ جراثیم آلودہ کھانے، پانی، یا غیر حفظان صحت کے حالات کے ذریعے جسم میں داخل ہوتے ہیں۔ خاص طور پر بچوں میں، جہاں مدافعتی نظام ابھی مکمل طور پر ترقی یافتہ نہیں ہوتا، یہ انفیکشنز زیادہ خطرناک ہو سکتے ہیں۔ اس لیے والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ بچوں کی خوراک اور حفظان صحت پر خصوصی توجہ دیں۔

تحقیق کی اہمیت

یہ مطالعہ، جو متعدد ممالک میں کیا گیا، نے اس بات کی تصدیق کی کہ کولابیکٹن سے متاثرہ افراد میں آنتوں کا کینسر 40 سال سے کم عمر میں بھی تشخیص ہوا ہے، جو کہ اس مرض کی روایتی عمر سے کم ہے۔ کچھ معاملات میں، یہ اثرات 70 سال کی عمر تک ظاہر نہیں ہوتے، جو اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ بچپن میں ہونے والا ایک انفیکشن دہائیوں بعد خطرناک شکل اختیار کر سکتا ہے۔

محققین نے اس بات پر زور دیا کہ یہ جینیاتی تبدیلیاں اکثر بغیر کسی علامت کے ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے ان کا پتہ لگانا مشکل ہوتا ہے۔ اس لیے فوڈ پوائزننگ کو ایک معمولی بیماری سمجھنے کی بجائے اسے سنجیدگی سے لینا ضروری ہے، خاص طور پر بچوں کے لیے۔

فوڈ پوائزننگ سے بچاؤ

ماہرین نے فوڈ پوائزننگ سے بچاؤ کے لیے کئی اہم ہدایات جاری کی ہیں:

  1. کھانے کی حفظان صحت: کھانا پکانے سے پہلے ہاتھ، برتن، اور باورچی خانے کی سطحوں کو اچھی طرح صاف کریں۔ گوشت، مچھلی، اور انڈوں کو مناسب درجہ حرارت پر پکائیں تاکہ جراثیم ختم ہو جائیں۔

  2. پانی کا معیار: بچوں کو ہمیشہ صاف اور فلٹر کیا ہوا پانی پلائیں۔ غیر صاف پانی ای کولی اور دیگر جراثیم کا بڑا ذریعہ ہے۔

  3. کھانے کا مناسب ذخیرہ: کھانے کو فریج میں مناسب درجہ حرارت پر رکھیں اور پرانا یا خراب کھانا فوری طور پر پھینک دیں۔

  4. فوری طبی امداد: اگر بچے میں فوڈ پوائزننگ کی علامات، جیسے کہ اسہال، الٹی، یا بخار، نظر آئیں تو فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

ماہرین نے والدین کو مشورہ دیا کہ وہ بچوں کی خوراک پر نظر رکھیں اور انہیں غیر معیاری یا سڑک پر ملنے والے کھانوں سے پرہیز کرائیں۔ اس کے علاوہ، باقاعدہ چیک اپ اور صحت مند طرز زندگی کینسر کے خطرے کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔

تشویش اور آگاہی

اس تحقیق کے منظر عام پر آنے کے بعد سوشل میڈیا، خاص طور پر ایکس، پر لوگوں نے اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ایک صارف نے لکھا، ’’یہ سوچنا ہی خوفناک ہے کہ بچپن کی ایک معمولی فوڈ پوائزننگ کینسر کا باعث بن سکتی ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کی خوراک پر زیادہ توجہ دینی ہوگی۔‘‘ ایک اور صارف نے تبصرہ کیا، ’’یہ تحقیق ہر والدین کے لیے ایک وارننگ ہے کہ حفظان صحت کو سنجیدگی سے لیں۔‘‘

کچھ صارفین نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستانی معاشرے میں، جہاں فوڈ پوائزننگ کے واقعات عام ہیں، اس تحقیق کی روشنی میں حکومتی سطح پر آگاہی مہمات شروع کی جانی چاہئیں۔ ایک صارف نے لکھا، ’’ہمارے ہاں سٹریٹ فوڈ بہت مقبول ہے، لیکن اس کے معیار پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں۔ یہ تحقیق ہمیں جاگنے کا پیغام ہے۔‘‘

پس منظر

آنتوں کا کینسر (colorectal cancer) دنیا بھر میں کینسر کی تیسری سب سے عام قسم ہے، اور اس کی شرح کم عمر افراد میں تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) کے مطابق، 2020 میں آنتوں کے کینسر کے 1.9 ملین نئے کیسز رپورٹ ہوئے، اور یہ شرح ترقی پذیر ممالک میں بھی بڑھ رہی ہے۔ پاکستان میں، جہاں صحت کے بنیادی ڈھانچے اور آگاہی کی کمی ایک چیلنج ہے، اس طرح کی تحقیقات عوام کو بیدار کرنے کے لیے اہم ہیں۔

فوڈ پوائزننگ، خاص طور پر ای کولی اور کلوسٹریڈیوائیڈز ڈفیسائل سے ہونے والی بیماریاں، پاکستان جیسے ممالک میں عام ہیں، جہاں پانی کی آلودگی اور غیر معیاری کھانے کی وجہ سے یہ انفیکشنز پھیلتے ہیں۔ اس تحقیق کی روشنی میں، پاکستانی معاشرے کے لیے ضروری ہے کہ فوڈ سیفٹی کے معیارات کو بہتر بنایا جائے اور عوام میں حفظان صحت کے بارے میں شعور اجاگر کیا جائے۔

یہ تحقیق صحت عامہ کے لیے ایک اہم پیش رفت ہے، کیونکہ یہ فوڈ پوائزننگ کو ایک معمولی بیماری کے طور پر دیکھنے کے رجحان کو چیلنج کرتی ہے۔ بچپن میں ہونے والی ای کولی انفیکشن کا دہائیوں بعد آنتوں کے کینسر سے تعلق ایک چونکا دینے والا انکشاف ہے، جو والدین، ڈاکٹروں، اور پالیسی سازوں کے لیے ایک واضح انتباہ ہے۔ خاص طور پر پاکستان جیسے ممالک میں، جہاں فوڈ پوائزننگ کے واقعات معمول ہیں، اس تحقیق کی اہمیت دوچند ہو جاتی ہے۔

پاکستان میں سٹریٹ فوڈ اور غیر معیاری کھانے کی دکانیں فوڈ پوائزننگ کے بڑے ذرائع ہیں۔ اس کے علاوہ، صاف پانی کی کمی اور ناقص حفظان صحت کے حالات ای کولی اور دیگر جراثیمی انفیکشنز کے پھیلاؤ کو بڑھاتے ہیں۔ اس تحقیق کی روشنی میں، حکومتی سطح پر فوڈ سیفٹی ریگولیشنز کو سخت کرنے اور عوام میں آگاہی پھیلانے کی ضرورت ہے۔ اسکولوں اور کمیونٹی سینٹرز میں بچوں اور والدین کو حفظان صحت کے بارے میں تعلیم دینا بھی ایک اہم قدم ہو سکتا ہے۔

یہ تحقیق ہمیں یہ بھی یاد دلاتی ہے کہ کینسر جیسے سنگین امراض کے اسباب صرف طرز زندگی یا جینیاتی عوامل تک محدود نہیں ہیں، بلکہ بچپن کی معمولی بیماریاں بھی اس میں کردار ادا کر سکتی ہیں۔ اس لیے بچوں کی صحت کو ترجیح دینا اور ان کی خوراک پر گہری نظر رکھنا والدین کی اولین ذمہ داری ہے۔

تاہم، یہ تحقیق کچھ سوالات بھی اٹھاتی ہے۔ مثال کے طور پر، کیا تمام ای کولی انفیکشنز کینسر کا خطرہ بڑھاتے ہیں، یا یہ صرف کولابیکٹن پیدا کرنے والی اقسام تک محدود ہے؟ اس کے علاوہ، کیا اس خطرے کو کم کرنے کے لیے کوئی مخصوص اسکریننگ یا حفاظتی اقدامات کیے جا سکتے ہیں؟ مستقبل میں اس طرح کی تحقیقات ان سوالات کے جوابات فراہم کر سکتی ہیں۔

آخر میں، یہ رپورٹ ہمیں فوڈ پوائزننگ کو سنجیدگی سے لینے اور بچوں کی صحت پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیتی ہے۔ صاف پانی، معیاری خوراک، اور حفظان صحت کے بنیادی اصولوں پر عمل کر کے نہ صرف فوڈ پوائزننگ بلکہ اس کے طویل مدتی اثرات، جیسے کہ آنتوں کا کینسر، کو روکا جا سکتا ہے۔ یہ تحقیق ہر والدین اور معاشرے کے لیے ایک عظیم موقع ہے کہ وہ اپنی صحت اور آنے والی نسلوں کے مستقبل کو محفوظ بنائیں۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین