تل ابیب: اسرائیلی وزیرِاعظم بینجمن نیتن یاہو نے اعلان کیا ہے کہ اگر حماس باقی یرغمالیوں کو رہا کر دے اور غزہ چھوڑنے پر آمادہ ہو تو اس کے رہنماؤں کو معافی اور محفوظ راستہ دیا جا سکتا ہے۔ برطانوی اخبار ٹیلی گراف کے مطابق، نیتن یاہو اس سے قبل حماس کے مکمل خاتمے کو ہی جنگ بندی کا واحد حل قرار دے چکے تھے، تاہم اب انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے کی تفصیلات کی تصدیق کر دی ہے۔ نیتن یاہو نے فاکس نیوز کو بتایا کہ اگر حماس جنگ ختم کرے اور تمام یرغمالیوں کو رہا کر دے تو ہم انہیں جانے دیں گے”۔ انہوں نے کہا کہ یہ سب ایک بڑے منصوبے کا حصہ ہے جس پر مذاکرات جاری ہیں۔ یہ اعلان 28 ستمبر 2025 کو سامنے آیا، جبکہ امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر عندیہ دیا کہ "کچھ بڑا ہونے جا رہا ہے، پہلی بار ہم یہ معاہدہ مکمل کریں گے”۔ غزہ میں 7 اکتوبر 2023 سے جاری اسرائیلی فوجی کارروائیوں میں اب تک 65 ہزار 549 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں اکثریت عام شہریوں کی ہے۔
امن منصوبے کی تفصیلات
عرب میڈیا کی رپورٹس کے مطابق، صدر ٹرمپ کا مجوزہ معاہدہ اس بات پر مبنی ہے کہ اسرائیل کی جانب سے عوامی اعلان کے 48 گھنٹے کے اندر تمام یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے حماس کے رہنماؤں کو محفوظ راستہ دیا جائے گا۔ منصوبے کے مطابق، اسرائیل کئی سو فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا اور فلسطینی شہداء کی لاشیں بھی واپس کرے گا۔ یہ 21 نکاتی منصوبہ امریکی صدر ٹرمپ کی قیادت میں تیار کیا گیا ہے، جس میں حماس کے خاتمے کے بغیر جنگ بندی، غزہ کی غیر فوجی حیثیت، اور فلسطینی ریاست کی طرف ایک سیاسی راستہ شامل ہے۔ منصوبے کی اہم شقیں یہ ہیں:
- یرغمالیوں کی فوری رہائی: تقریباً 20 زندہ یرغمالیوں (جن میں سے کچھ امریکی شہری بھی ہیں) کی رہائی، جو اسرائیلی فوج کی مرحلہ وار واپسی کے بدلے میں ہوگی۔
- حماس کے رہنماؤں کو معافی اور محفوظ راستہ: حماس کے ارکان جو تشدد سے انکار کریں اور غزہ میں رہیں، انہیں معافی دی جائے گی، جبکہ جو نہ مانیں انہیں محفوظ راستہ دیا جائے گا تاکہ وہ غزہ چھوڑ سکیں۔
- فلسطینی قیدیوں کی رہائی: اسرائیل کئی سو فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا، جو 7 اکتوبر 2023 کے حملوں کے بعد گرفتار ہوئے تھے۔
- لاشوں کی واپسی: فلسطینی شہداء کی لاشوں کو غزہ واپس کیا جائے گا، جو انسانی حقوق کی تنظیموں کی طویل مطالبات میں شامل ہے۔
- غزہ کی غیر فوجی حیثیت: حماس کی توڑ پھوڑ، غزہ کی ڈی ملٹریائزیشن، اور حماس کو مستقبل کی حکومت میں کوئی کردار نہ دینا۔
- فلسطینی ریاست کی طرف راستہ: فلسطینی اتھارٹی کی اصلاحات کے بعد فلسطینی ریاست کی طرف ایک معتبر سیاسی افق، جس میں ویسٹ بینک کی ضم ہونے سے انکار شامل ہے۔
یہ منصوبہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاسوں کے دوران تقسیم کیا گیا تھا، اور اس پر عرب اور مسلم ممالک بھی مشاورت کر رہے ہیں۔
منصوبے کی حتمی شکل
امریکی صدر ٹرمپ پیر کو (29 ستمبر 2025) وائٹ ہاؤس میں نیتن یاہو سے ملاقات کریں گے تاکہ تقریباً دو سال سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے امن منصوبے کو حتمی شکل دی جا سکے۔ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر عندیہ دیا کہ "کچھ بڑا ہونے جا رہا ہے، پہلی بار ہم یہ معاہدہ مکمل کریں گے”۔ نیتن یاہو نے فاکس نیوز کو بتایا کہ "ہم صدر ٹرمپ کی ٹیم کے ساتھ کام کر رہے ہیں، اور امید ہے کہ یہ ممکن ہو جائے گا کیونکہ ہم اپنے یرغمالیوں کو آزاد کروانا چاہتے ہیں، حماس کی حکمرانی ختم کرنا چاہتے ہیں، غزہ کو غیر فوجی بنانا چاہتے ہیں، اور غزہ اور اسرائیلیوں کے لیے ایک نیا مستقبل قائم کرنا چاہتے ہیں”۔ تاہم، نیتن یاہو نے واضح کیا کہ منصوبہ ابھی حتمی نہیں ہوا، اور مذاکرات جاری ہیں۔
حماس کا ردعمل اور علاقائی تناظر
حماس نے اتوار کو بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ اسے قطر اور مصر کے ثالثیوں سے کوئی نئی تجاویز نہیں ملیں، اور مذاکرات تین ہفتے قبل دوحہ میں حماس رہنماؤں پر حملے کی ناکام کوشش کے بعد معطل ہیں۔ حماس نے کہا کہ وہ "قومی حقوق کی حفاظت کرتے ہوئے مثبت اور ذمہ دارانہ انداز میں کسی بھی تجویز کا جائزہ لے گا”۔ اسرائیلی وزیرِ قومی سلامتی ایتامار بن گویر نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ "نیتن یاہو کو حماس کی مکمل شکست کے بغیر جنگ ختم کرنے کا مینڈیٹ نہیں ہے”۔ یرغمالیوں کے خاندانوں نے نیویارک کے سنٹرل پارک میں مظاہرہ کیا، جہاں انہوں نے جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔
یہ منصوبہ قطر کی ثالثی کی اہمیت کو بھی تسلیم کرتا ہے، جہاں اسرائیل نے حملوں کو روکنے کا وعدہ کیا ہے۔ غزہ کی صحت وزارت (حماس کنٹرولڈ) کے مطابق، 7 اکتوبر 2023 کے حملوں کے بعد سے 66 ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔
یہ امن منصوبہ غزہ کی دو سالہ جنگ کے خاتمے کی طرف ایک امید افزا قدم ہے، جو نہ صرف انسانی جانوں کی بچت کر سکتا ہے بلکہ علاقائی استحکام اور فلسطینی-اسرائیلی تنازع کے حل کی بنیاد بھی رکھ سکتا ہے۔ سب سے پہلے، یہ منصوبہ یرغمالیوں کی فوری رہائی کو مرکزی حیثیت دیتا ہے، جو 20 زندہ یرغمالیوں سمیت اسرائیلی خاندانوں کی طویل جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور شہداء کی لاشوں کی واپسی انسانی حقوق کی ایک بڑی کامیابی ہوگی، جو دونوں فریقین کے درمیان اعتماد کی بحالی کا باعث بنے گی۔ حماس کو معافی اور محفوظ راستہ دینے کی پیشکش، اگرچہ متنازعہ ہے، مگر یہ حماس کی غیر فوجی تبدیلی کی طرف ایک عملی راستہ کھولتی ہے، جو غزہ کو ایک مستحکم علاقے میں تبدیل کر سکتی ہے۔
دوسرا، ٹرمپ کا 21 نکاتی منصوبہ فلسطینی ریاست کی طرف ایک معتبر سیاسی افق پیش کرتا ہے، جو ویسٹ بینک کی ضم ہونے سے انکار اور فلسطینی اتھارٹی کی اصلاحات پر مبنی ہے۔ یہ عرب اور مسلم ممالک کی حمایت حاصل کر سکتا ہے، جو ٹرمپ کی یقین دہانیوں سے مطمئن ہیں کہ اسرائیل علاقائی توسیع نہیں کرے گا۔ غزہ کی ڈی ملٹریائزیشن اور حماس کی توڑ پھوڑ سے علاقائی سلامتی بڑھے گی، جو مصر، قطر اور اردن جیسے پڑوسیوں کو فائدہ پہنچائے گی۔ ٹرمپ کی قیادت میں یہ منصوبہ ابراہام اکورڈز کی توسیع کا موقع بھی دیتا ہے، جو سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کو اسرائیل کے قریب لا سکتا ہے، اور فلسطینی ریاست کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔
تیسرا، نیتن یاہو کی نرم موقف کی تبدیلی، جو پہلے حماس کے مکمل خاتمے پر اصرار کرتے تھے، سفارتی کامیابی کی نشاندہی کرتی ہے۔ وائٹ ہاؤس میں منگل کی ملاقات یہ طے کرنے کا موقع ہے، جو دو سال کی تباہی کے بعد انسانی بحران کا خاتمہ کر سکتی ہے۔ حماس کا مثبت جائزہ لینے کا بیان مذاکرات کی امید دلاتا ہے، اور یرغمالی خاندانوں کے مظاہرے عوامی دباؤ کو بڑھا رہے ہیں۔ یہ منصوبہ غزہ کی تعمیر نو کے لیے "ٹرمپ ڈویلپمنٹ پلان” بھی شامل کرتا ہے، جو معاشی بحالی لائے گا۔
آخر میں، یہ پیشکش امن کی طرف ایک مثبت موڑ ہے جو لاکھوں فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کی زندگیاں بچا سکتی ہے۔ اگر نتیجہ خیز ہو تو یہ مشرق وسطیٰ کی تاریخ بدل دے گا، فلسطینی ریاست کی بنیاد رکھے گا، اور دہشت گردی کے خلاف علاقائی اتحاد کو مضبوط کرے گا۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ سفارت کاری اور باہمی رعایت سے تنازعات حل ہو سکتے ہیں، اور ٹرمپ–نیتن یاہو کی ملاقات اس کی کلید ہو سکتی ہے۔





















