آداب اختلاف

’’آداب اختلاف‘‘ کے اہم موضوع پر ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے ایک منفرد کتاب تحریر کی ہے ۔ ڈاکٹر حسن محی الدین قادری اس سے قبل دو جلدوں پر مشتمل دستور مدینہ اور فلاحی ریاست کا تصور کے موضوع پر ایک جامع کتاب مرتب کر چکے ہیں ۔ اس کو زبردست پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ یہ کتاب اس اعتبار سے بھی منفرد اعزاز کی حامل ہے کہ قانونی حلقوں میں اس کتاب کا بڑا خیر مقدم کیا گیا ہے اور لاہور، بہاولپور، فیصل آباد، سیالکوٹ سمیت پاکستان کی بڑی بارز میں تقریب رونمائی ہو چکی ہے۔ اس کتاب کو بحرین اور کویت کے قانونی حلقوں میں بھی تقریب رونمائی کا اعزاز حاصل ہے۔ ڈاکٹر حسن محی الدین قادری کی نئی کتاب آدابِ اختلاف کے موضوع پر لکھی گئی ہے۔ یہ کتاب 17ابواب، 118موضوعات اور367صفحات پر مشتمل ہے۔ کتاب میں مصنف نے آداب اختلاف پر قرآن و سنت، آئمہ محدثین کے حوالہ جات کے ساتھ اپنی بحث کو نہایت دلنشیں اور مدلل انداز کے ساتھ آگے بڑھایا ہے اور اختلاف رائے کی اخلاقیات پر روشنی ڈالی ہے۔ اگر ہم فی زمانہ فروعی اختلافات اور آئے روز کے جھگڑوں پر نظر دوڑائیں تو بیشتر جھگڑے صرف اس وجہ سے ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ہم اختلاف رائے اور مخالفت کے درمیان فرق بھول گئے ہیں۔ اگر کوئی ہماری رائے سے اختلاف کرے تو ہم سمجھتے ہیں کہ اس نے ہمارے خلاف اعلان جنگ کر دیا ہے، ہماری سوسائٹی کا ایک دوسرا فکری المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں ہر شخص اس مطالبہ کے ساتھ اپنی مکمل بات سنانا چاہتا ہے کہ دوسرا حرف بہ حرف توجہ سے سنے اور اسے درست بھی مانے مگر ہم دوسروں کی بات کو توجہ کے ساتھ چند لمحوں کے لئے بھی سننے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ اس معاشرتی اخلاقی برائی سے کوئی طبقہ محفوظ نہیں ہے تاہم یہ رویہ دینی حلقوں میں کچھ زیادہ شدت کے ساتھ موجود ہے جہاں اختلاف رائے کو ایمان اور کفر کی جنگ بنا دیا جاتا ہے۔ دو سال قبل تحریک منہاج القرآن کے بانی و سرپرست شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے مدارس دینیہ کے نصاب کے حوالے سے ایک حیران کن انکشاف کیا تھا کہ یہ نصاب پونے تین سو سال پرانا ہے اور اس نصاب میں اخلاقیات یا امن پر کوئی ایک بھی مفصل کتاب نہیں پڑھائی جاتی ؟اب اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے مدارس دینیہ کے نصاب میں مثبت تبدیلیاں قبول کئے جانے کا رجحان موجود ہے اور اس حوالے سے ریاست اور مدارس دینیہ مثبت کردار ادا کررہے ہیں لیکن ابھی بہت سارا کام ہونا باقی ہے۔ مدارس دینیہ کے اندر اختلاف رائے کی اخلاقیات کو بطور مضمون پڑھایا جانا چاہیے تاکہ سوسائٹی کے اندر بڑھتے ہوئے جھگڑے اور انتہا پسندی کا راستہ روکا جا سکے۔ متشدد رجحانات صرف مذہبی حلقوں کے اندر ہی نہیں بلکہ سیاست، معیشت اور معاشرت کا کوئی شعبہ بھی اس عدم برداشت سے محفوظ نہیں ہے۔ پارلیمنٹ کے اندر جس قسم کی گفتگو ایک دوسرے کے بارے میں کی جاتی ہے سپیکر کا زیادہ وقت ان غیر پارلیمانی الفاظ کو حذف کرنے میں بسر ہوتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ہم اختلاف رائے کو مخالفت سمجھنے لگ جاتے ہیں۔

ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے اپنی مذکورہ کتاب میں اختلاف کے آداب و ضوابط پر جرح کی ہے اور غالباً اس موضوع پر یہ اپنی نوعیت کی پہلی مفصل کتاب ہے۔ میری ذاتی رائے ہے اس کتاب کو مدارس دینیہ کے نصاب میں شامل کرنے کے ساتھ ساتھ اسے ایم اے اسلامیات کے نصاب میں بھی شامل کیا جانا چاہیے۔ اس موضوع پر یہ کتاب آج کے دور کی بڑی ضرورت تھی جسے نہایت عمدگی کے ساتھ ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے پورا کیا ہے، ہمارے علماء ہمارے سیاست دانوں، ہمارے کاروباری طبقات یہاں تک کہ دوست احباب، عزیز و اقارب سب کو اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ اُنہیں معلوم ہو کہ اختلاف رائے کس طرح کیا جاتا ہے اور اس کی اخلاقیات اور اسلامی اقدار کیا ہیں؟ ۔
آدب اختلاف کے ساتھ سوسائٹی کا اجتماعی امن جڑا ہوا ہے۔ جون ایلیاکا ایک خوبصورت شعر ہے کہ ’’ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ ……کہ آج تک بات نہیں کہی گئی، بات نہیں سنی گئی‘‘ سوسائٹی میں عدم برداشت اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ سچ بولنا ہی نہیں سچ سننا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ ہم اختلاف رائے کو اپنی ذات پر عدم اعتماد اور بدگمانی سمجھتے ہیں ۔ ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ یہ بات ثابت کی ہے کہ صحت مند اختلاف رائے باعث خیر ہے، اختلاف رائے متشدد رویے اور تکفیریت، افراط و تفریط، تعصب اور ہجو وتمسخر سے پاک ہونا چاہیے۔ اختلاف اور مخالفت کی حدود خلط ملط نہیں ہونی چاہئیں۔ ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے اپنی اس کتاب میں قرآن و سنت کے دلائل کی روشنی میں سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ کی بھی اخلاقی تربیت کی ہے کہ سوشل میڈیا پر اختلاف رائے کا اظہار کس طرح کرنا چاہیے۔ اختلاف رائے میں اعتدال ضروری ہے۔ سورۃ الرحمن میں اللہ رب العزت نے فرمایا ’’اور اسی نے آسمان کو بلند کررکھا ہے اور (اسی نے عدل کے لئے) ترازو قائم کررکھی ہے تاکہ تم بولنے میں بے اعتدالی نہ کرو، اور انصاف کے ساتھ وزن کو ٹھیک رکھو اور تول کو کم نہ کرو‘‘۔ اللہ رب العزت نے یہاں جس ترازو کی بات کی ہے اس سے مراد اعتدال ہے یعنی افراط و تفریط سے بچواور جب بھی آپ کسی سے بات کریں تو اُس میں تحقیر و تشنیع اور دوسرے کی تذلیل کا عنصر نہیں ہونا چاہیے۔ اگر سوال میں تعصب اور بلاجواز تنقید و تنقیص ہو گی تو سننے والا اصلاح کی بجائے بُرا تاثر لے گا اور ردعمل میں اُسی انداز کے ساتھ حملہ آور ہو گا۔ سوسائٹی کو اعتدال کی راہ پر چلانے کے لئے خود پسندی اور خود کو کامل و اکمل انسان سمجھنے کی سوچ سے باہرنکلنا ہو گا۔ اگر سوسائٹی کا امن خطرے میں پڑتا ہوا دکھائی دے تو اپنی صائب ذاتی رائے کو بھی سہولت ہونے کے باوجود دوسروں پر مسلط نہیں ہونا چاہیے۔
ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے اس ضمن میں ایک خوبصورت تاریخی واقعہ رقم کیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں خلیفہ منصور کو امام مالک کی کتاب ’’موطا امام مالک‘‘ بہت پسند آئی، خلیفہ کی سوچ تھی کہ اگر لوگ اس کتاب پر جمع ہو جائیں تو وہ لاتعداد فقہی اختلافات سے بچ سکتے ہیں۔ خلیفہ منصور نے امام مالک کی اس کتاب کے چند نسخے تیار کروا کر دوسرے شہروں اور ملکوں میں بھیجنے کا ارادہ کیا مگر امام مالک نے خلیفہ وقت کو ریاستی سطح پر اپنی کتاب کی تشہیر اور تقسیم سے یہ کہہ کر روک دیا کہ اس سے اُمت میں اختلاف بڑھ سکتا ہے۔ لہٰذا ہر خطہ کے لوگوں کو ان کی پسند کے علماء سے کسب علم و فیض کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا، کسی کا نقطہ نظر کسی پر مسلط کرنا جائز نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ امام و محدثین بعض امور پر اختلاف رائے رکھنے کے باوجود ایک دوسرے کا بے حد احترام کرتے تھے ، کبھی طنزیہ جملے نہیں کستے تھے، ایک دوسرے کا سوشل بائیکاٹ نہیں کرتے تھے، جس اختلاف رائے سے احترام اور شائستگی کے جذبات دم توڑ جائیں وہ اختلاف رائے صحت مند نہیں ہو سکتا۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین