سموگ سے نپٹنے کیلئے کیا اقدامات کرنے چاہئیں؟

تحریر: حورین فاطمہ

دنیا بھر کے بڑے شہر فضائی آلودگی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے مختلف اقدامات کر رہے ہیں۔ لندن اور بیجنگ جیسے شہروں میں سموگ اور فضائی آلودگی کی سطح بہت زیادہ ہے، جس کی وجہ سے صحت اور ماحول دونوں پر سنگین اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ لندن اور بیجنگ کی مثالیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ بڑے شہروں میں سموگ کو کنٹرول کرنا ایک پیچیدہ چیلنج ہو سکتا ہے، لیکن مختلف حکومتی پالیسیوں، ٹیکنالوجی کی مدد، اور عوامی آگاہی کے ذریعے اس پر قابو پانے کے لیے اہم اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔

1. سموگ اور فضائی آلودگی کا تعارف

سموغ ایک قدرتی اور مصنوعی آلودگی ہے جو فضائی آلودگی کی ایک شکل ہے، جس میں دھند، دھواں، اور دیگر آلودہ ذرات شامل ہوتے ہیں۔ یہ آلودگی شہر کے ماحول میں مختلف وجوہات کی بنا پر پیدا ہوتی ہے، جیسے کہ گاڑیوں کا دھواں، صنعتی اخراجات، عمارات کی حرارتی ضروریات، اور قدرتی عوامل جیسے کہ مٹی اور بخارات۔ جب سموگ کی شدت بڑھ جاتی ہے تو یہ انسانوں کی صحت کے لیے بہت خطرناک ثابت ہو سکتا ہے، کیونکہ یہ سانس کی بیماریوں، دل کے امراض، اور دیگر صحت کے مسائل کو بڑھا دیتا ہے۔ لندن اور بیجنگ دونوں ہی ایسے شہر ہیں جہاں سموگ کا مسئلہ بہت سنگین ہے اور ان کے لیے اس کا حل تلاش کرنا ضروری بن گیا ہے۔

2. لندن میں سموگ سے نپٹنے کیلئے کیے گئے اقدامات

لندن نے 1950 کی دہائی میں سموگ کی ایک بڑی آلودگی کی لہر کا سامنا کیا تھا جسے "گرے سموگ” یا "لندن سموگ” کہا گیا۔ اس کے بعد سے لندن نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں تاکہ فضائی آلودگی کو کم کیا جا سکے۔ لندن نے مختلف مراحل میں متعدد حکومتی پالیسیوں کو اپنایا، جن میں شامل ہیں:

2.1 ماحول دوست ٹرانسپورٹ کی فروغ

لندن میں سموگ کو کم کرنے کے لیے سب سے اہم اقدام ٹرانسپورٹ کے شعبے میں اصلاحات کرنا تھا۔ لندن نے عوامی نقل و حمل کو فروغ دینے کے لیے ٹیوب (سب وے)، بسوں، اور دیگر ماحول دوست وسائل کو ترجیح دی۔ لندن میں ایک وسیع بس نیٹ ورک موجود ہے، اور یہ بسیں ماحول دوست ایندھن جیسے الیکٹرک بس یا ہائیبڈ بس استعمال کرتی ہیں۔ لندن کے حکام نے گاڑیوں کی تعداد کو کم کرنے کے لیے ٹریفک کو منظم کرنے کی حکمت عملی اپنائی۔

2.2 ماحولیاتی قوانین اور پابندیاں

لندن میں سموگ کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے حکومتی سطح پر سخت ماحولیاتی قوانین اور پابندیاں نافذ کی گئیں۔ ایندھن کے اخراجات پر قابو پانے کے لیے لندن نے یورپی یونین کی معیاری حدود پر عمل کیا۔ گاڑیوں اور فیکٹریوں سے نکلنے والے زہریلے گیسوں کو محدود کرنے کے لیے قوانین کی تعمیل کو سخت کیا گیا ہے۔ لندن نے شہر کے مختلف حصوں میں لو ایمیشن زونز (LEZ) متعارف کرائے ہیں، جہاں صرف وہ گاڑیاں داخل ہو سکتی ہیں جو کم اخراجات والے ماحول دوست معیار پر پورا اترتی ہیں۔

2.3 گرین سموگ کا خاتمہ

لندن نے "گرین سموگ” کا خاتمہ کرنے کے لیے درختوں کی تعداد بڑھانے اور سبز جگہوں کی تعمیر پر زور دیا ہے۔ درخت فضائی آلودگی کو کم کرنے میں مدد دیتے ہیں، کیونکہ وہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر زہریلی گیسوں کو جذب کرتے ہیں۔ لندن کے پارکس اور سبز علاقے شہر میں فضائی آلودگی کو کم کرنے کے لیے ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

2.4 عوامی آگاہی

لندن میں سموگ کے خطرات کے بارے میں عوامی آگاہی بڑھانے کے لیے مختلف مہمات چلائی گئیں۔ حکومتی ادارے اور مقامی تنظیمیں لوگوں کو سموگ کے اثرات سے آگاہ کرتی ہیں اور انہیں یہ بتاتی ہیں کہ کس طرح وہ اس مسئلے سے بچ سکتے ہیں۔ مثلاً، لوگوں کو آلودہ دنوں میں گھر پر رہنے اور کھڑکیاں بند رکھنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔

2.5 تجدیدی ٹیکنالوجی اور تحقیق

لندن نے سموگ کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے جدید تحقیق اور ٹیکنالوجی کا استعمال بھی شروع کیا۔ مختلف تحقیقی اداروں نے سموگ کو کم کرنے کے لیے نئے طریقے اور تکنیکیں دریافت کیں، جیسے کہ فضائی فلٹریشن سسٹمز، جو کہ عوامی مقامات پر نصب کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ، لندن کی حکومت نے فضائی آلودگی کی مانیٹرنگ کے لیے جدید آلات اور سنسرز کا استعمال کیا ہے تاکہ آلودگی کی سطح کا تجزیہ کیا جا سکے اور اس کے مطابق اقدامات کیے جا سکیں۔

3. بیجنگ میں سموگ سے نمٹنے کے اقدامات

بیجنگ میں سموگ کا مسئلہ کئی دہائیوں سے ایک سنگین مسئلہ رہا ہے۔ چین کی تیز رفتار صنعتی ترقی، بڑھتی ہوئی آبادی، اور گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ اس مسئلے کے اہم اسباب ہیں۔ تاہم، بیجنگ کی حکومت نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں جو قابل ذکر ہیں۔

3.1 صنعتی اخراجات کی کمی

بیجنگ نے سموگ کو کم کرنے کے لیے صنعتی اخراجات کو کم کرنے کے لیے سخت اقدامات کیے ہیں۔ چین نے اپنے صنعتی شہروں میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کو فروغ دیا تاکہ فیکٹریوں سے نکلنے والی آلودگی کم کی جا سکے۔ بیجنگ میں دھواں پیدا کرنے والی فیکٹریوں کو شہر سے باہر منتقل کرنے کے لیے حکومتی اقدامات کیے گئے ہیں۔

3.2 گرین انرجی کی طرف منتقلی

بیجنگ نے قدرتی وسائل سے بجلی پیدا کرنے کے لیے گرین انرجی جیسے ہوا، پانی، اور شمسی توانائی کے ذرائع کا استعمال بڑھایا۔ اس اقدام سے نہ صرف سموگ میں کمی آئی بلکہ بیجنگ نے عالمی سطح پر ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف اپنی ذمہ داریوں کو بھی پورا کیا۔

3.3 گاڑیوں کی تعداد میں کمی

بیجنگ میں فضائی آلودگی کی ایک بڑی وجہ گاڑیوں کا دھواں ہے۔ بیجنگ نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں جن میں عوامی نقل و حمل کے نظام کی توسیع، الیکٹرک گاڑیوں کا فروغ، اور گاڑیوں کی رجسٹریشن کے طریقہ کار میں تبدیلی شامل ہے۔ بیجنگ کی حکومت نے گاڑیوں کی تعداد کو کم کرنے کے لیے گاڑیوں کی رجسٹریشن کو محدود کر دیا ہے اور شہر میں داخل ہونے والی گاڑیوں پر اضافی ٹیکس لگا دیا ہے۔

3.4 ماحولیاتی قوانین اور پالیسیوں کا نفاذ

بیجنگ میں ماحولیاتی قوانین کو سختی سے نافذ کیا گیا ہے۔ چین کی حکومت نے آلودگی کی سطح کو کم کرنے کے لیے مختلف نوعیت کی پالیسیاں متعارف کرائیں۔ ان پالیسیوں میں سموگ کی شدت کو مانیٹر کرنے کے لیے آلات کی تنصیب، آلودگی کے خلاف مؤثر قوانین کا نفاذ، اور عالمی سطح پر ماحول دوست ٹیکنالوجیز کا استعمال شامل ہے۔

3.5 عوامی آگاہی اور تعلیم

بیجنگ میں سموگ کے اثرات سے بچنے کے لیے عوامی آگاہی پروگرامز بھی چلائے گئے ہیں۔ ان پروگرامز میں شہریوں کو سموگ کے بارے میں آگاہی فراہم کی جاتی ہے اور انہیں احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ، بیجنگ کی حکومت نے انڈور ایئر کوالٹی کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کیے ہیں، تاکہ شہری اندر کے ماحول میں بھی محفوظ رہ سکیں۔

4. نتیجہ

لندن اور بیجنگ جیسے بڑے شہروں نے سموگ سے نمٹنے کے لیے مختلف حکمت عملیوں کو اپنایا ہے اور ان اقدامات نے دونوں شہروں میں فضائی آلودگی کے مسائل کو حل کرنے میں مدد دی ہے۔ لندن نے عوامی نقل و حمل کی بہتر سہولتوں، ماحولیاتی قوانین، اور سبز اقدامات کو ترجیح دی ہے، جبکہ بیجنگ نے صنعتی اخراجات کو کم کرنے، گاڑیوں کی تعداد میں کمی، اور گرین انرجی کے استعمال پر زور دیا ہے۔

دونوں شہروں نے اپنے اقدامات سے سموگ پر قابو پانے میں اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں لیکن سموگ کا مسئلہ ایک مسلسل چیلنج ہے جس کے لیے پاکستان سمیت دنیا بھر میں حکومتوں کو مزید موثر پالیسیوں اور اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، عوامی تعاون اور عالمی سطح پر ماحولیاتی کوششیں اس مسئلے کو حل کرنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین