تحریر غلام مرتضیٰ
آج مورخہ 3دسمبر 2024ء روزنامہ جنگ کے اداریہ میں حکومت کو مشورہ دیا گیا ہے کہ انٹر نیٹ کی رفتار کو کم کردینا نا صرف مسئلے کا حل نہیں بلکہ یہ طریقہ بے شمار مسائل کو جنم دینے کا سبب بن جاتا ہے، ملک کے لاکھوں فری لانسرز کا کام رک جاتاہے جن کے کلائنٹ دوسرے ملکوں میں ہیں جو قومی خزانے کو کروڑوں ڈالر فراہم کرتے ہیں اس سے کاروباری سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوتی ہیں، حکومت کے اپنے ریونیو اہداف متاثر ہوتے ہیں۔ اداریہ میں تجویز کیا گیا ہے کہ جھوٹے پروپیگنڈے کا پردہ پورا سچ سامنے لا کر بآسانی چاک کیا جاسکتا ہے، اداریہ میں لکھا گیا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر انٹر نیٹ کی رفتار کو تیز سے تیز تر کرنے اور پانچویں کے بعد چھٹی جنریشن متعارف کر وانے کی تیاری جاری ہے اس دوڑ میں پیچھے رہنے کا مطلب ترقی کی بجائے پسماندگی کا انتخاب ہے او ر کوئی ہوش مند قوم اور حکومت ایسا نہیں کر سکتی، لہٰذا منفی پروپیگنڈ ا کا مقابلہ انٹر نیٹ کو سست کر کے نہیں جھوٹ کو بے نقاب اور پالیسیوں کی اصلاح کر کے کیاجانا چاہیے۔ یہ نہایت مدبرانہ اداریہ ہے ان چند لائنوں میں جملہ مسائل کا حل پیش کر دیا گیا ہے کہ بیانیہ کا مقابلہ بیانیہ سے ہی ممکن ہے، اگر منفی پروپیگنڈا کرنے اور جھوٹ پھیلانے والے سوشل میڈیا کے ذریعے اپنا موقف کامیابی کے ساتھ پیش کر سکتے ہیں تو لامحدود وسائل کی حامل حکومت اور ریاست پورا سچ سامنے لا کر جھوٹ کے غبارے کو کیوں نہیں پھاڑ دیتی؟اس وقت ایک دو کے سوا تمام بڑی سیاسی جماعتیں اقتدار میں ہیں ان کے لاکھوں کارکن اپنی حکومت کی پالیسیوں اور حقائق کو سوشل میڈیا پر متبادل بیانیہ کے طور پر کیوں پیش کرنے میں ناکام کیوں ہیں؟ یہ پہلی خوش قسمت حکومت ہے جو جب چاہتی ہے آئین میں ترمیم کر لیتی ہے، جب چاہتی ہے قانون بدل دیتی ہے، اس حکومت کو یہ طاقت بھی میسر ہے کہ کسی آئینی ادارے کا فیصلہ ان کے مزاج پر گراں گزرے تو یہ وہ فیصلہ ڈسٹ بین میں پھینک دیتی ہے اور ایسا کرتے ہوئے انہیں کسی روک ٹوک یا رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تو پھر آخر کیا وجہ ہے کہ حکومت ایک پروپیگنڈا کو من گھڑت اور منفی قرار دینے کے باوجود اُس کا سدباب نہیں کرپارہی؟، یہ بات نہایت افسوس ناک ہے کہ بیرونی دنیا میں افواج پاکستان اور اس کی قیادت کے خلاف نہایت منفی مہم جاری ہے۔یہ ملکی مفادات پر بہت بڑا حملہ ہے، ذمہ داروں کا تعین ضروری ہے تاہم حکومت اس منفی پروپیگنڈا کی روک تھام کے محاذ پر یا تو مکمل طور پر ناکام ہے یا نااہل ہے یا پھر غفلت کا شکار ہے، تینوں صورتوں میں جرم ناقابل معافی ہے۔وزیر اعظم انسداد انتہا پسندی کے حوالے سے ضرور پالیسیوں کی منظوری دیں، ٹاسک فورسز قائم کریں لیکن ایک ٹاسک فورس ریاستی اداروں کے خلاف موثر اقدامات نہ کرنے والی حکومت اور وزارت خارجہ کی ناکامیوں کے احاطہ کے لئے بھی قائم ہونی چاہیے۔ ریاستی اداروں کی آئینی ساکھ کی حفاظت حکومت کی آئینی ذمہ داریوں میں سرفہرست ہے۔ وزیر اعظم دوسروں پر انگلیاں اٹھانے کے ساتھ ساتھ اس ضمن میں اپنی او ر اپنی ٹیم کی کارکردگی پر بھی جواب دیں کہ وہ اربوں روپے کے وسائل استعمال کرنے کے باوجود اس منفی پروپیگنڈا مہم کے سامنے بے بس کیوں ہیں؟ وہ اپنی حکومت اور اپنے کارکنوں کو سچ سامنے لانے کے لئے متحرک کیوں نہیں کر پارہے؟ یہ بات بھی زیر بحث ہے کہ ریاستی اداروں کے خلاف بیرونی دنیا میں اس سے پہلے بھی مہمات چلیں،اس وقت بھی پاکستان میں یا تو پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت تھی یا مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی آج بھی یہی دو جماعتیں ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی ہیں۔ٹاسک فورس کو اس نقطہ پر بھی غور کرنا چاہیے کہ ان حکومتوں کے دور میں ریاستی اداروں کے خلاف پروپیگنڈا شدت اختیار کر جاتا ہے کیا یہ محض اتفاق ہے؟ اداریہ میں ایک بات اور بھی کی گئی ہے کہ جھوٹے پروپیگنڈے کے توڑ کیلئے پالیسیوں میں اصلاح کی ضرورت ہے، پچھلے دوسال حکومت نے احتجاج اور منفی پروپیگنڈا کی روک تھام کیلئے جی بھر کر ڈنڈا چلایا،جیلیں بھریں، مقدمات قائم کیے،نیز کوئی ایسا ہتھکنڈہ نہیں تھا جو بروئے کار نہیں لایا گیا مگر اس کے باوجود منفی پروپیگنڈا میں کمی نہیں آئی، لہٰذا حکومت اس حقیقت کو سمجھ لے تشدد کے ذریعے تشدد کے خاتمے کی سوچ سے تشدد میں اضافہ ہوتا ہے۔ اب ایک موقع پیار، عدل و انصاف،در گزر کو بھی ملنا چاہیے؟