لاہور:پاکستان جعلی خوراک کی خرید و فروخت کی بڑی منڈی بن گیا۔ کروڑوں شہریوں کی صحت و جان کے لئے سنگین خطرات، ہسپتال مریضوں سے بھرنے لگے، جعلی اور دو نمبر خوراک و ادویات کے باعث معدہ، گردوں،
بلڈپریشر کے امراض سرفہرست ہیں۔
عالمی ادارہ صحت (WHO) کے مطابق پاکستان میں ہر سال تقریباً 40 فیصد لوگ مضر صحت خوراک کی وجہ سے مختلف بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں۔ پاکستان کونسل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ (PCSIR) کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں دستیاب ٹی وائٹنرز اور جمی ہوئی خوراک کی کئی اقسام صحت کے لیے مضر ثابت ہوئی ہیں۔
اسلام آباد میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی کا اجلاس منعقد ہوا، جہاں مضر صحت خوراک اور دھوکہ دہی پر مبنی اشتہارات پر تفصیلی بحث کی گئی۔ کمیٹی کے چیئرمین، سینیٹر کامل علی آغا نے اجلاس میں انکشاف کیا کہ دودھ کے نام پر "ٹی وائٹنر” اور اچار کے نام پر مضر صحت اشیاء فروخت کی جا رہی ہیں، لیکن ان پر کوئی سوال نہیں اٹھایا جا رہا۔
کمیٹی کے ارکان نے نشاندہی کی کہ ٹی وی پر کھانے پینے کی اشیاء کے ایسے اشتہارات دکھائے جا رہے ہیں جن میں مصنوعات کی اصل حقیقت کو چھپایا جاتا ہے۔ سینیٹر ندیم احمد بھٹو نے کہا کہ "فروزن فوڈ” یا جمی ہوئی خوراک کے زیادہ تر اقسام انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔
سیکرٹری سائنس و ٹیکنالوجی نے بتایا کہ "ٹی وائٹنر” بنانے والی کمپنیاں اپنے اشتہارات میں "دودھ” کا لفظ استعمال نہیں کرتیں بلکہ کہتی ہیں کہ یہ چائے کے لیے موزوں ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ آئس کریم کے کئی اشتہارات میں بھی "آئس کریم” کا لفظ شامل نہیں ہوتا کیونکہ یہ اصل میں ویجی ٹیبل فیٹ (سبزیوں کے تیل سے بنی چکنائی) ہوتی ہے۔ ان کے مطابق کمپنیاں قانون سے بچنے کے لیے چالاکی سے کام لیتی ہیں۔
سیکرٹری نے وضاحت کی کہ خوراک کا معیار چیک کرنا صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے، جبکہ پاکستان اسٹینڈرڈز اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی (پی ایس کیو سی اے) صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔
چیئرمین کمیٹی نے مزید کہا کہ دودھ اور دیگر کھانے پینے کی مصنوعات بیچنے والی کمپنیاں مل کر اشتہارات چلاتی ہیں، جو صارفین کو گمراہ کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ اس دھوکہ دہی کو روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔