اسلام آباد:سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے سندھ اور پشاور ہائی کورٹس میں ایڈیشنل ججز کی نامزدگیوں پر اعتراضات اٹھائے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان کے نام اپنے خط میں جسٹس منصور علی شاہ نے 26ویں آئینی ترمیم اور اس کے تحت قائم جوڈیشل کمیشن کی آئینی حیثیت پر سوالات اٹھائے ہیں۔
خط میں جسٹس منصور نے مؤقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف تقریباً دو درجن درخواستیں زیر سماعت ہیں، اور ان درخواستوں پر فیصلہ آنے تک جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کو ملتوی کیا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر یہ ترمیم کالعدم قرار دی گئی تو جوڈیشل کمیشن کے تحت کیے گئے تمام فیصلے اور ججز کی تقرریاں غیر مؤثر ہو جائیں گی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے خط میں وضاحت کی کہ انہوں نے اور جسٹس منیب اختر نے 31 اکتوبر 2024 کو فل کورٹ میں ان درخواستوں کو سماعت کے لیے مقرر کرنے کا فیصلہ کیا تھا، لیکن تاحال ان مقدمات پر سماعت کا وقت طے نہیں کیا گیا، اور رجسٹرار کی جانب سے کوئی ردعمل موصول نہیں ہوا۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ چیف جسٹس ان معاملات کو فل کورٹ میں پیش کریں تاکہ آئینی ترمیم اور جوڈیشل کمیشن کی حیثیت پر واضح فیصلہ کیا جا سکے۔