2030 تک پاکستان میں آدھی آبادی غذائی قلت کا شکار ہوگی، ماہرین کی پیشگوئی
کراچی:پاکستان کو 2030 تک غذائی عدم تحفظ کے شدید بحران کا سامنا ہو سکتا ہے، ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں اور پانی کی قلت کے بڑھتے ہوئے اثرات ملک کی نصف آبادی کو غذائی قلت کے دہانے پر لے جا سکتے ہیں۔
یہ تشویشناک وارننگ انسٹی ٹیوٹ فار گلوبل ہیلتھ اینڈ ڈویلپمنٹ (IGH&D) کے زیر اہتمام ایک سیمینار میں دی گئی، جس کا موضوع تھا "پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی، زراعت، انسانی غذائیت اور ترقی”۔ اس سیمینار میں سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ سلوشنز نیٹ ورک (SDSN) پاکستان نے بھی تعاون کیا، جہاں ماہرین نے خوراک کی فراہمی، زراعت، اور عوامی صحت کو لاحق خطرات پر روشنی ڈالی۔
آغا خان یونیورسٹی کے ڈائریکٹر اور عالمی شہرت یافتہ ماہر پروفیسر ڈاکٹر ذوالفقار بھٹہ نے اختتامی کلمات میں پاکستان کی زراعت پر موسمیاتی تبدیلی کے خطرناک اثرات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان کی 90 فیصد زراعت دریائے سندھ پر منحصر ہے، جو برف کے تیزی سے پگھلنے اور بے ترتیب بارشوں کی وجہ سے غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے۔
ڈاکٹر بھٹہ نے خبردار کیا کہ 2010 سے 2022 تک پاکستان میں 200 سے زائد موسمیاتی تبدیلی کے واقعات پیش آئے، جن کی وجہ سے 30 ارب ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان ہوا۔ مزید یہ کہ پاکستان پہلے ہی پانی کی شدید قلت والے ممالک میں شامل ہے، جہاں فی کس پانی کی دستیابی 1000 کیوبک میٹر سے کم ہو چکی ہے۔
ماہرین نے اس بات پر زور دیا کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان کی نصف آبادی غذائی عدم تحفظ کا شکار ہو سکتی ہے۔ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق، 2023 میں بھی پاکستان کے تقریباً 20 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں، جو اگلے سات سالوں میں مزید بڑھنے کا امکان ہے۔
سیمینار کے دوران تجویز کیا گیا کہ پاکستان کو اپنی زراعت کے لیے جدید اور پائیدار حل تلاش کرنے کی اشد ضرورت ہے، جیسے کہ پانی کے مؤثر استعمال کے لیے ڈرپ ایریگیشن، موسمیاتی تبدیلیوں کے مطابق بیجوں کی اقسام، اور زراعت کے جدید طریقے اپنانا۔ ماہرین نے یہ بھی تجویز دی کہ خوراک کی کمی سے نمٹنے کے لیے قومی سطح پر پالیسی مرتب کی جائے جو عوامی شعور اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنائے۔
یہ وارننگ حکومت، پالیسی سازوں، اور عوام کے لیے ایک اہم موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ غذائی تحفظ کو قومی ترجیحات میں شامل کریں اور دیرپا حل کے لیے عملی اقدامات کریں۔